امریکہ میں صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے ’’امریکی چیزیں خریدو‘‘ کے نام سے اپنی نئی حکمت عملی کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور وہ اب دنیا بھر میں موجود امریکی سفارتخانوں میں اپنے ملٹری اتاشیوں اور سفارتکاروں کو زور دے گی کہ وہ امریکی ہتھیاروں کی دنیا بھر میں فروخت کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کریں اور اس کیلئے اُنہیں اپنے معمول کے فرائض سے آگے بڑھ کر کوششیں کرنا ہوں گی۔
توقع ہے کہ صدر ٹرمپ آئیندہ فروری میں امریکی اسلحے کی برآمدات میں نرمی کی نئی پالیسی کا اعلان کریں گے۔ ان برآمدات میں لڑاکا جہازوں، ڈرون، جنگی جہازوں اور گولہ بارود تک تما م قسم کا اسلحہ شامل ہو گا۔
اس حکمت عملی کا مقصد صدر ٹرمپ کے انتخابی وعدے کو پورا کرنا ہے جس میں اُنہوں نے بیرون ملک امریکی سازوسامان کی فروخت بڑھا کر امریکیوں کیلئے روزگار میں اضافے اور چھ برس سے جاری 50 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کو کم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
امریکی دفاعی کنٹریکٹرز ٹرمپ انتظامیہ کو چین اور روس کی طرف سے مقابلے بازی کے حوالے سے بھی خبردار کر رہے ہیں۔ تاہم اسلحے کی بیرون ملک فروخت کیلئے برآمدات میں نرمی کرنے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو گی اور ہتھیاروں میں کمی پر زور دینے والے گروپ اس بات کے خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ امریکی اسلحے کی فروخت میں خطیر اضافے سے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں کشیدگی کا ماحول بڑھ سکتا ہے اور اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ مختلف ملکوں کو فروخت ہونے والے امریکی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگ جائیں۔
ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ امریکی ہتھیاروں کی فروخت پر پابندیاں نرم کرنے سے نان۔ نیٹو اتحادیوں اور دیگر شراکت داروں کو امریکی اسلحہ فروخت کرنے سے اربوں ڈالر کمائے جا سکیں گے اور امریکیوں کیلئے روزگار میں اضافہ ہو گا۔ اس عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’’ہم امریکی کمرشل اور ملٹری اتاشیوں کو اسلحہ کی فروخت کیلئے سیلزمین کا کردار ادا کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ پینٹاگون اور امریکی محکمہ خارجہ کو ہتھیاروں کی بیرون ملک فروخت کا پابند بنانے سے لاک ہیڈ مارٹن اور بوئینگ کمپنی جیسے بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں کو زیادہ فائدہ ہو گا۔
امریکی تھنک ٹینک اسٹمسن سینٹر میں روایتی دفاعی پروگرام کی ڈائریکٹر ریچل اسٹوہل کہتی ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ نے شروع ہی سے واضح کر رکھا ہے کہ اُن کیلئے معاشی فوائد زیادہ اہم ہیں اور اُن کے نزدیک انسانی حقوق کی زیادہ اہمیت نہیں ہے۔ تاہم امریکی انتظامیہ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ہتھیاروں کی فروخت بڑھانے کے فیصلے میں انسانی حقوق کے تحفظ کا تصور موجود رہے گا۔ تاہم اُنہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے معاملے کے مقابلے میں یہ بات زیادہ اہم ہو گی کہ ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق کوئی ڈیل امریکی معیشت اور امریکہ میں اسلحہ ساز صنعت کے فروغ کیلئے کتنی اہم ہے۔ یوں انسانی حقوق کے حوالے سے ریڈ لائینز کو از سر نو مرتب کرنا ہو گا۔