رسائی کے لنکس

بنگلہ دیش: شیخ حسینہ کی کٹرمخالف خالدہ ضیاء کو رہا کر دیا گیا


بنگلہ دیش کی حزب اختلاف کی مرکزی جماعت بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیا، فائل فوٹو
بنگلہ دیش کی حزب اختلاف کی مرکزی جماعت بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیا، فائل فوٹو
  • بنگلہ دیش کی پہلی خاتون وزیر اعظم خالدہ ضیاء کو منگل کے روز گھر میں نظربندی سے رہا کر دیا گیا۔
  • ایک روز قبل ان کی کٹر مخالف شیخ حسینہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر ملک سے فرار ہو گئیں۔
  • یہ بنگلہ دیش پر کنٹرول کے لیے "بیٹل آف دی بیگم" نامی کئی عشروں پرانی کہانی میں ایک اور موڑ ہے۔

بنگلہ دیش کی پہلی خاتون رہنما خالدہ ضیاء کو منگل کے روز گھر میں نظربندی سے رہا کر دیا گیا، جب کہ ایک روز قبل ان کی سخت ترین دشمن شیخ حسینہ وزیر اعظم اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر ملک سے فرار ہو گئیں ۔یہ بنگلہ دیش پر کنٹرول کے لیے "بیٹل آف دی بیگم" نامی کئی عشروں پرانی کہانی میں ایک اور موڑ ہے۔

صدر محمد شہاب الدین کے دفتر نے کہا کہ حزب اختلاف کی مرکزی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ خالدہ کو دفا ع سے متعلق سربراہوں اور سیاست دانوں سے گفت و شنید کے بعد رہا کر دیا گیا ہے۔

بنگلہ دیش پر 1991 سے 76 سالہ حسینہ اور 78 سالہ خالدہ کا غلبہ رہا ہے جنہوں نے ابنگلہ دیش کے دو مقتول حکمرانوں کی سیاسی تحریکوں کو ورثے میں حاصل کرنے کے بعد متبادل طریقے سے اقتدار سنبھالا تھا۔ ان دونوں مقتول رہنماؤں نے بنگلہ دیش کے قیام کے پہلے دس سالوں میں اس کی قیادت کی تھی۔

بنگلہ دیش کی سیاسی رینما حسینہ واجد اور خالدہ ضیا، فائل فوٹو
بنگلہ دیش کی سیاسی رینما حسینہ واجد اور خالدہ ضیا، فائل فوٹو

شیخ حسینہ نے اپنے والد، ملک کے بانی مجیب الرحمان کی جماعت عوامی لیگ کی قیادت کی، جنہیں 1975 میں قتل کر دیا گیا تھا۔

خالدہ نے بنگلہ دیش نیشنل پارٹی ، بی این پی کو اپنے شوہر ضیا الرحمان کے بعد سے سنبھالا تھا ،جنہیں 1981 میں قتل کر دیا گیا تھا۔

ان دونوں کا دیرینہ تنازعہ ، جو "بیٹل آف دی بیگمز" یا "بیگمات کی جنگ" کے نام سے جانا جاتا ہے، کئی دہائیوں سے بنگلہ دیشی سیاست پر چھایا رہا ہے۔

2009 میں حسینہ کی جیت کے بعد سے،خالدہ کو کئی مجرمانہ الزامات اور جیل کا سامنا کرنا پڑا، انہوں نے عوامی زندگی سے کنارہ کشی اختیار کی اور اپنے سب سے بڑے بیٹےکو اپنی سیاسی تحریک کا قائم مقام رہنما بنا دیا جو جلاوطن ہیں۔

پندرہ اگست 1945 کو پیدا ہونے والی خالدہ ڈاکٹروں کے مطابق، جگر کی بیماری، ذیابیطس اور دل کے مسائل میں مبتلا ہیں۔

اپنے پہلے نام سے مشہور، خالدہ کو 1981 میں اپنے شوہر کے ایک فوجی بغاوت کی کوشش میں قتل کیے جانے تک بڑے پیمانے پر ایک گھریلو بیوی اور بچوں کے لیے وقف ماں کے طور پر دیکھا جاتا تھا ۔

بنگلہ دیش کو غربت اور معاشی پسماندگی سے آزاد کرانے کے اپنے مقصد کو پورا کرنے کے عزم کے ساتھ سیاست میں قدم رکھنے کے تین سال بعد وہ اپنے شوہر کی قدامت پسند پارٹی بی این پی کی سربراہ بن گئیں۔

خالدہ ضیا جنوری 2014 میں ڈھاکہ میں ایک ریلی میں پہنچنے پر سر گرم کارکنوں کو ہاتھ ہلا رہی ہیں، فائل فوٹو
خالدہ ضیا جنوری 2014 میں ڈھاکہ میں ایک ریلی میں پہنچنے پر سر گرم کارکنوں کو ہاتھ ہلا رہی ہیں، فائل فوٹو

انہوں نے اور حسینہ نے جمہوریت کے لیے ایک عوامی بغاوت کی قیادت کرنے کے لیے اتحاد کیا تھا جس نے 1990 میں فوجی حکمران حسین محمد ارشاد کا تختہ الٹ دیا ۔ لیکن سیاسی عداوت نے ان کے تعلقات کو متاثر کیا اور اس وقت سے وہ دونوں مسلسل ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں۔

سال 1991 میں بنگلہ دیش میں ہونے والے ان انتخابات میں، جنہیں آزادانہ انتخابات کے طور پر سراہا گیا ،خالدہ نے اسلامی سیاسی اتحادیوں کی حمایت حاصل کرتے ہوئے حسینہ پر حیرت انگیز کامیابی حاصل کی۔

ایسا کرتے ہوئے، وہ بنگلہ دیش کی پہلی خاتون وزیر اعظم اورپاکستان کی بے نظیر بھٹو کے بعدخاص طور پر کسی مسلم ملک کی جمہوری حکومت کی قیادت کرنے والی دوسری خاتون بن گئیں ۔

انہوں نے صدارتی نظام کو پارلیمانی طرز حکومت سے بدل دیا تاکہ اقتدار وزیر اعظم کے پاس رہے، غیر ملکی سرمایہ کاری پر پابندیاں ہٹا دیں اور پرائمری تعلیم کو لازمی اور مفت کر دیا۔

وہ 1996 کے الیکشن میں حسینہ سے ہار گئیں، پھر پانچ سال بعد ایک اور الیکشن میں اقتدار میں واپس آئیں۔ ان کی دوسری مدت اسلام پسند عسکریت پسندوں کے عروج اور بدعنوانی کے الزامات کی وجہ سے متاثر ہوئی۔

بنگلہ دیش کی لیڈر شیخ حسینہ واجد کی 2023 کی انتخابی مہم کی ایک ریلی کا منظر ، فوٹو اے پی ۔
بنگلہ دیش کی لیڈر شیخ حسینہ واجد کی 2023 کی انتخابی مہم کی ایک ریلی کا منظر ، فوٹو اے پی ۔

سن 2004 میں ایک ریلی میں جس سے حسینہ خطاب کر رہی تھیں ،دستی بموں کا حملہ ہوا جن میں حسینہ تو بچ گئیں لیکن 20 سے زیادہ لوگ مارے گئے اور 500 سے زیادہ زخمی ہوئے۔

خالدہ کی حکومت اور ان کے اسلامی اتحادیوں پر بڑے پیمانے پر اس کا الزام لگایا گیا، اور برسوں بعد خالدہ کے بڑے بیٹے پر غیر حاضری میں مقدمہ چلایا گیا اور اس حملے پر عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

بی این پی نے الزامات کو غلط قرار دے کر انہیں مسترد کیا ۔

اگرچہ خالدہ نے بعد میں اسلام پسند اساس پسند گروہوں پر قابو پالیا، لیکن وزیر اعظم کے طور پر ان کا دوسرا دور 2006 میں ختم ہوا جب فوج کی حمایت یافتہ عبوری حکومت نے سیاسی عدم استحکام اور سڑکوں پر تشدد کے درمیان اقتدار سنبھالا۔

عبوری حکومت نے خالدہ اور حسینہ، دونوں کو، 2008 میں عام انتخابات سے قبل رہا ہونے سے قبل تقریباً ایک سال تک بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام میں جیل بھیج دیا تھا۔

اگرچہ بی این پی نے 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور خالدہ نے کبھی دوبارہ اقتدار حاصل نہیں کیا تھا، لیکن حسینہ کے ساتھ ان کی شدید دشمنی بنگلہ دیشی سیاست پر حاوی رہی۔

ان دونوں کی جماعتوں کے درمیان کشیدگی اکثر ہڑتالوں، تشدد اور اموات کا باعث بنی، جس سے تقریباً 17 کروڑ آبادی والےغربت زدہ ملک کے لیے اقتصادی ترقی متاثر ہوتی ہے جو کہ تباہ کن سیلابوں کا شکار ہے۔

اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG