شاعری کا مقصد درحقیقت محبوب کی جدائی کی تڑپ کو بیان کرنا ہے۔ شاعری کی یہ تعریف مصنفّفہ اور شاعرہ نییومی لیزارڈ کو فیض احمد فیض سے ملی۔ان کی فیض احمد فیض سے ملاقات1979ءمیں اس وقت ہوئی تھی جب دلکش اور خوبصورت امریکی جزائر ہوائی کے شہر ہونولولو میں متحرمہ لیزارڈ مصنفین کے لیے منعقد کی گئی ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے آئی تھیں۔
اردو نہ جانتے ہوئے بھی انہیں اندازہ ہو گیا کہ جس شخص سے وہ ملی ہیں وہ ایک عظیم شاعر ہے۔ مگر ساتھ یہ ساتھ انہیں یہ احساس بھی ہوا کہ اُس وقت تک فیض کی شاعری کے تمام انگریزی ترجمے پرانی روِش پر تھے۔ ان میں انگریزی کا جدید نہیں بلکہ وکٹورین لہجہ اپنایا گیا تھا، لہٰذا موجودہ دور میں انگریزی پڑھنے والوں کا فیض کو سمجھنا یا سراہنا قدرے مشکل تھا۔
چنانچہ لیزارڈ نے اس بات کا بیڑہ اٹھایا کہ وہ فیض کی شاعری کا ترجمہ اس انداز میں کریں گی کہ پڑھنے والے اس کی روح کو سمجھ سکیں۔ اس کام میں ان کا ساتھ دیا خود فیض صاحب نے۔ اور اس مشترکہ کوشش کا نتیجہ لیزارڈ کی کتاب ‘‘دی ٹرُو سبجیکٹ’’ کی صورت میں سامنے آیا۔
نییومی لیزارڈ اس پینل کا حصہ تھیں جو سنیچر کو نیو یارک کی پیس یونیورسٹی میں لیفٹ فورم 2011ءنامی ایک کانفرنس میں فیض احمد فیض پر منعقد کردہ سیشن کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔
ان کے علاوہ پینل میں فیض پر تحقیق کرنے والے امریکی و پاکستانی سکالروں کے علاوہ فیض کے حلقہ احباب سے مصنف سیّد علی نقوی بھی شامل تھے جو نہ صرف کئی دفعہ فیض سے مل چکے تھے بلکہ جن کے گھر فیض مہمان بھی ٹھہر چکے تھے۔
فیض کا موازنہ اقبال سے کرتے ہوئے مسٹر نقوی نے کہا کہ باوجود اس کے کہ اقبال ایک بہت بلند پایہ شاعر تھے، فیض شدّت جذبات کے اظہار میں بازی لے گئے تھے۔
فیض کی زندگی کے واقعات بیان کرتے ہوئے مسٹر نقوی نے بتایا کہ فیض نے اپنی بہترین شاعری تب کی جب انہیں فوجی آمر ایّوب خان کے دور میں چار سال کے لیے پابند سلاسل کر دیا گیا تھا۔
پینل میں شامل نوجوان سکالر بلال ہاشمی کا کہنا تھا کہ فیض کی شاعری اور ان کی شخصیت دونوں ہی قومیت سے بالاتر ہیں۔
فیض احمد فیض کی پیدائش کی صد سالہ تقریبات اس سال کی ابتدا سے ہی پوری دنیا میں منائی جا رہی ہیں اور نیو یارک میں بھی اس سلسلے کی کئی تقریبات ہو چکی ہیں اور مزید کی توقع ہے۔
فیض نے قدیم اور جدید کے ملاپ سے شاعری کو ایک نئی جہت دی۔