بچوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ نے بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کو چھ ماہ تک پاکستان میں کام جاری رکھنے کی اجازت کا خیر مقدم کیا ہے۔
گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں ’سیو دی چلڈرن‘ کا دفتر بند کر دیا گیا تھا جب کہ حکام کی طرف سے تنظیم کے غیر ملکی عملے کو 15 روز میں ملک چھوڑنے کی ہدایت بھی کی گئی تھی۔
اس فیصلے پر ملکی و بین الاقوامی حلقوں کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آنے کے بعد وزیرِ اعظم کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ غیر سرکاری تنظیموں سے متعلق قانون سازی اور اُن کے لیے نیا ضابطہ کار متعین ہونے تک ان کو ملک میں کام کرنے کی اجازت دی جائے۔
’سیو دی چلڈرن‘ کے ترجمان سعید احمد منہاس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’’ہم وزیرِ اعظم ہاؤس کی جانب سے آنے والے اس حکم کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ یہ ہمارا دیرینہ مطالبہ تھا کہ حکومت وقت کا تعین کر دے اور قواعدوضوابط واضح کر دے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ہم حکومت پاکستان کے تمام احکامات اور قواعد و ضوابط کی پابندی کرتے رہے ہیں، اور آنے والے دنوں میں بھی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیں گے۔ ’’اگر کوئی مزید غلط فہمیاں ہیں تو ہم حکومت پاکستان کے اداروں کے ساتھ مل کر اپنی معصومیت کو ثابت کرنے کے لیے تیار ہیں، اور اپنے تمام اکاؤنٹس اور کھاتے ان کے سامنے کھول کر رکھنے کو تیار ہیں۔‘‘
ترجمان نے کہا کہ ہم آنے والے دنوں میں پاکستانی ماؤں اور بچوں کی تعلیم و صحت کے لیے حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کی امید کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ ’سیو دی چلڈرن‘ کا اسلام آباد میں انتظامیہ کی طرف سے سیل کردہ دفتر بدستور بند ہے جب کہ اس تنظیم نے ملک بھر میں اپنے دیگر دفاتر خود ہی بند کر کے پاکستان میں اپنے عملے کے 1200 افراد کو گھروں سے کام کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے۔
پاکستان میں کام کرنے والی تمام بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کے حکام سے کہا گیا ہے کہ وہ حکومت کے متعلقہ اداروں کے پاس اپنی نئی رجسٹریشن کا عمل تین ماہ میں مکمل کریں۔
پاکستان میں کام کرنے والی بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کے لیے ایک ضابطہ کار تیار کرنے کے لیے بھی وزیراعظم نواز شریف نے اپنے خصوصی معاون برائے خارجہ اُمور طارق فاطمی کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دے رکھی ہے۔
یہ کمیٹی ملک میں کام کرنے والی ’این جی اوز‘ کی طرف سے مستقبل میں مقامی قوانین کی پاسداری کو یقینی بنانے اور ان کی نگرانی کا طریقہ کار وضع کرنے کے ساتھ ساتھ اس ضمن میں قانون سازی کے لیے مسودہ بھی تجویز کرے گی۔