اخبار یو ایس اے ٹوڈے نائن الیون کی دسویں برسی کو موضوع بناتے ہوئے لکھتا ہے کہ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خطرے اور اس کے خوف سے نمٹنے کے لیے جو اقدامات ہوئے ان کا ہی نتیجہ ہے کہ اس خوفناک واقعے کی دسویں برسی کے موقع پر ہم سرخروئی سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ نائن الیون کے بعد ایسا کوئی دوسرا واقعہ امریکی سر زمین پر پیش نہیں آیا، افغانستان میں دہشت گرد تنظیم لقاعدہ کے تربیتی کیمپ تباہ کیے جا چکے ہیں ،ا س کے میزبان طالبان اپنے اقتدار سے محروم ہو چکے ہیں ، القاعدہ کی فنڈنگ کا نیٹ ورک توڑا جا چکا ہے اور آخر کار اسامہ بن لادن ہلاک کیا جا چکا ہے ۔ اسلامی ملکو ں میں القاعدہ اور بن لادن کے خلاف منفی رائے عامہ پیدا ہو چکی ہے اور اس موسم بہار میں عرب ملکوں کی عوامی تحریکوں میں بیشتر مسلمانوں نے القاعدہ کے نظریات کی نسبت آزادی اور اقتصادی مواقعوں میں کہیں زیادہ دلچسپی ظاہر کی ہے ۔
اسی طرح اندرون ملک نائن الیون کے بعد کے خوف کی جگہ ایک پر مقصد اتحاد وجود میں آچکا ہے جس کے نتیجے میں دہشت گردی کے خلاف ملک کا دفاع مضبوط ہوا۔ فضائی سیکیورٹی اور شہریوں کی چوکسی میں اضافہ ہوا ، قوانین کے بہتر نفاز سے دہشت گردی کے 20 سے زیادہ منصوبے ناکام ہوئے ۔اسی طرح سیاسی اور مذہبی راہنماؤں نے مسلمانوں کے خلاف اس عمومی تعصب کو روکنے کےلیے مؤثر طور پر کام کیا جس نے نائن الیون کے بعد کے رد عمل کو منفی طور پر متاثر کیا تھا۔
تاہم اخبار لکھتا ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صرف اور صرف کامیابیاں ہی سامنے آئی ہیں ۔ اخبار کے مطابق اس جنگ کی سب سے اہم بڑی غلطی عراق کی جنگ تھی جس کے لیے وسیع تباہی کے ان ہتھیاروں کے خطرے کو دور کرنے کا جواز دیا گیاتھا جن کے بارے میں پتہ چلا کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ اور اس جنگ پر اگر اتنے زیادہ وسائل خرچ نہ ہوتے تو آج افغانستان کی جنگ کامیاب طریقے سے ختم ہوتی ۔ اسی طرح بلا وارنٹ وائر ٹیپنگ اور دہشت گردی کے مشتبہ افراد کی واٹر بورڈنگ وہ زیادتیاں تھیں جن سے امریکی روائتی اقدار مجروح ہوئیں۔
اوراخبار لکھتا ہے کہ اس جنگ کے بارے میں مشکل ترین سوال یہ ہے کہ یہ کب ختم ہو گی۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم جیت رہے ہیں لیکن یہ جاننا مشکل ہو گا کہ ہم کب یہ جنگ جیت چکے ہوں گے۔
اوراخبار نیو یارک پوسٹ نے اپنے ایک ادارئے میں نائن الیون کی دسویں برسی کو موضوع بناتے ہوئے لکھا ہے کہ اس موقع پرنیو یارک کی سڑکوں پر سکیورٹی کی سختی کا تقریباًٍ ویسا ہی ماحول تھا جیسا کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملوں کے بعد کے دنوں میں تھا۔ اخبار لکھتا ہےکہ نائن الیون کے بعد سمندر پار امریکی فوجی کارروائیوں، قومی سیکیورٹی کے متعدد سخت قوانین کے نفازاور نیویارک پولیس ڈپارٹمنٹ کی سخت محنت کے باعث اس جیسا کوئی واقعہ دوبارہ کبھی پیش نہیں آ یا اور امریکہ اس سے زیادہ محفوظ ہے جتنا دس سال قبل تھا لیکن اخبار لکھتا ہے کہ نائن الیون کی دسویں برسی کے موقع پر نیو یارک یا واشنگٹن پر کسی دہشت گرد حملے کی سنجیدہ اور مستند دھمکی اور اس سے نمٹنے کے لیے سخت حفاظتی اقدام اس چیز کی یاد دہانی ہیں کہ امریکہ ابھی تک دہشت گردی کے خلاف جنگ کر رہا ہے یا یوں کہیے کہ دہشت گرد ابھی تک امریکہ کے ساتھ جنگ پر ہیں ۔اس لیے ہمیں چوکسی کا سلسلہ مسلسل جاری رکھنا ہو گا۔
تصور کیجیے کہ مین ہیٹن میں جڑواں ستون بدستور نمایاں ہوتے ،پنٹگان کا مغربی حصہ بدستور جڑا ہوتا ، Shanksville میں کوئی یادگار بنانے کا کوئی جواز نہ ہوتا اور تصور کیجے کہ نائن الیون کا مطلب سوائے ایک ایمرجنسی ٹیلی فون کال کے کچھ نہ ہوتا ۔یہ ہے اخبار واشنگٹن پوسٹ کے ایک اداریے کا ابتدائیہ جس میں مضمون نگار لکھتا ہے کہ گیارہ ستمبر 2001 کو دنیا تبدیل ہو گئی یہ تو واضح ہے لیکن کس حد تک اور کتنی بری طرح یہ واضح نہیں ہے۔
آگے چل کر اخبارلکھتا ہے کہ تاریخ دان اور ناول نگار اکثر اس قسم کی بحث کرتے ہیں کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا ہوتا جو اگرچہ ایک سادہ بحث ہی سہی لیکن اس قسم کی بحث سے ہمیں یہ پتہ چلانے میں مدد ملتی ہے کہ ماضی کے وہ کونسے عوامل ہیں جو حال میں ابھی تک ہمارے ساتھ ہیں اور جن کا جائزہ ہمیں اپنے موجودہ مسائل سے نمٹنے کی ایک راہ فراہم کر سکتا ہے۔
اسی سادہ مفروضے کو لے کر چلتے ہوئے اخبار لکھتا ہے کہ اگر امریکہ پر گیارہ ستمبر 2001 کو القاعدہ کے حملے نہ ہوتے ، اگر ورلڈ ٹریڈ سینٹر اورپنٹگان پر حملے کے لیے طیارے یائی جیک کرنے اور انہیں سینٹر پر ٹکرانے کا منصوبہ منسوخ ہو جاتا ، ناکام بنا دیا جاتا یا کبھی بنایا ہی نہ جاتا۔ تو ممکن ہے کہ اسامہ بن لادن اور اس کے اتحادی کوئی دوسرا خوفناک حملہ کرتے تاہم نائن الیون کے کسی واقعے کی عدم موجودگی میں القاعدہ کے خلاف امریکہ کی کوششیں ممکن ہے کہ محدود پیمانے پر جاری رہتیں ، افغانستان اور سوڈان میں القاعدہ کے ٹھکانوں پر کچھ ڈرون حملے ہوتے ، طالبان پر بن لادن کو نکالنے، اور انٹر نیشنل انٹیلی جینس اور قانون کے نفاذ میں تعاون پر دباؤ ڈالا جاتا۔اور ہم ایک پوری صدارتی انتظامیہ کے ایک منظم اصول کے طور پر وار ٓن ٹیرر کے اصول سے کبھی آشنا نہ ہوتے اور اسامہ بن لادن کا نام کبھی بھی ایک ہاؤس ہولڈ نیم نہ بنتا ۔
اخبار لکھتا ہے کہ نائن الیون کا حملہ نہ ہوتا تو امریکی کانگریس ٹرو مین کے د ور کے بعد سے نیشنل سیکیورٹی بیور کریسی کا سب سے بڑا ادارہ نہ بناتی۔ فضائی سفر میں لاکھ مسائل ہوتے لیکن ان میں اس حد تک سیکیورٹی اسکریننگ ممکن ہے شامل نہ ہوتی جتنی کہ اب ہے ۔ امریکی خارجہ پالیسی موجودہ پالیسی سے نمایاں حد تک مختلف اور لگ بھگ یقینی طور پر کم جارحانہ ہوتی اگر ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پنٹگان پر کبھی حملے نہ ہوتے تو امریکی دفاع کی پالیسی غالباًٍ مشرق وسطی سے زیادہ پیسیفک کے علاقے پر زیادہ مرکوز ہوتی، چین کے ساتھ کسی براہ راست محاذ آرائی کا کوئی امکان نہ ہوتا لیکن وار آن ٹیرر کی عدم موجودگی میں واشنگٹن ممکن ہے چین کی فوجی گڑھ بندی، امریکہ مخالف حکومتوں کے ساتھ اس کے سودوں اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف چینی ہائیکرز کے سائیبر اٹیکس پر کہیں زیادہ مرکوز ہوتا۔
اخبار لکھتا ہے کہ نائن الیون نہ ہوتا تو افغانستان پر اور ممکنہ طور پر عراق پر کوئی حملہ نہ ہوتا ۔زیادہ سے زیادہ ہم ویسی خفیہ کارروائیاں دیکھ پاتے جیسی کہ کلنٹن انتظامیہ نے 1998 میں اسامہ بن لادن اور اس کے حواریوں کو پناہ دینے والے ملکوں کے خلاف کی تھیں اور اخبار اپنا اداریہ سمیٹتے ہوئے لکھتا ہے کہ اگر نائن الیون نہ ہوتا تو آئی ای ڈی یعنی گھریلو ساختہ بم اور ٹی بی آٰ ئی یعنی ٹرامیٹک برین انجری یا شدید دماغی چوٹ جیسی اصطلاحات کبھی بھی امریکی فوجیوں کی ایک نسل کے لیے ایک اہم حقیقت نہ بنتیں ۔