رسائی کے لنکس

ورلڈ ٹریڈ سینٹر،چند یادیں


ورلڈ ٹریڈ سینٹر،چند یادیں
ورلڈ ٹریڈ سینٹر،چند یادیں

ورلڈ ٹریڈ سینٹر ایک اہم کاروباری مرکز تھا۔ اس کمپلکس میں دنیا کے اکثر بڑے کاروباری اداروں کے دفاتر موجود تھے اور ایک سودس منزلہ ان عمارتوں سے ہزاروں افراد کا روزگار وابستہ تھا۔ عمارت کے داخلی ہال میں بہت سے ملکوں کے جھنڈے آویزاں تھے جن میں پاکستان کا پرچم بھی شامل تھا۔

میں نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر تین بار دیکھا ہے۔ ہر بار ایک ایسے مختلف روپ میں کہ وہ لمحات اور مناظر میری یادوں کاایک اہم حصہ بن چکے ہیں۔

میں نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو شعلوں میں لپٹے، اس سے اٹھتے دھوئیں کے گہرے بادلوں اور پھر اسے گرتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ گیارہ ستمبر2001ء کے یہ ہولناک مناظر میں نے اسلام آباد میں ٹیلی ویژن پر دیکھے تھے۔ اس شام میں ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک معمول کی نشریات رک گئیں اور کسی امریکی ٹی وی چینل سے براہ راست نیویارک کے مناظر دکھانے شروع کردیے گئے جہاں اس وقت صبح کے تقربیاً نو بجے تھے۔اس وقت ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے شمالی ٹاور سے یونائیٹڈ ایئرکا ایک مسافر طیارہ ٹکرا چکا تھا اور دھوئیں کے گہرے بادل بلند ہورہے تھے

چند ہی منٹ کے بعد،میں نے ٹیلی ویژن کی سکرین پر ایک اور مسافر طیارے کوورلڈ ٹریڈ سینٹر کی طرف بڑھتے ، جنوبی ٹاور سے ٹکراتے اور آگ کے شعلے بلند ہوتے ہوئے دیکھے۔پھر کچھ ہی دیر بعد کا وہ منظر بھی مجھے یا د ہے جب دونوں ایک سو دس منزلہ بلند عمارتیں زمین میں دھنسنے کے انداز میں گرتے ہوئی نظر آئیں تھیں۔

ٹیلی ویژن پر دکھائی دینے والے مناظر انتہائی ہولناک اور دل دہلادینے والے تھے۔ دونوں مسافر طیارے دونوں ٹاوروں کے تقریباً درمیانی حصوں سے ٹکرائے تھے جس سے اوپر کے منزلوں میں موجود افراد کے لیے نیچے اترنے کے راستے مسدور ہوگئے تھے۔ اور کئی افراد نے اپنی جانیں بچانے کے لیے کھڑکیوں سے چھلانگیں لگادی تھیں۔ جان تو کیا بچنی تھی، آج اس سانحے کے دس سال کے بعد بھی ان کی شناخت کا تعین نہیں کیا جاسکا۔

عمارتوں کا گرتا ہوا ملبہ، دھواں، گردوغبار، چیخ و پکار، اندھا دھند بھاگتے ہوئے خوف زدہ اور پریشان لوگ۔ ایمبونس گاڑیوں اور فائر بریگیڈکے سائرن ۔۔۔وہ ایک ایسا منظر تھا جو آج بھی ذہن پر نقش ہے۔

ورلڈ ٹریڈ سینٹر،چند یادیں
ورلڈ ٹریڈ سینٹر،چند یادیں

مجھے کئی سال پہلے کے وہ مناظر یاد آئے جب میں نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی چھت پر کھڑے ہوکر دوربین سے نیویارک کا نظارہ کیا تھا اور بہت سی تصویریں اتاریں تھیں۔

یہ 1996ء کے آخر کا ذکر ہے۔ ان دنوں ہم واشنگٹن میں تھے اورپاکستان واپس جانے کی تیاری کررہے تھے۔ میں نے سوچا کہ وطن لوٹنے سے پہلے بچوں کو امریکہ کے کچھ اہم مقامات کی سیر کروا دی جائے۔ چنانچہ ستمبر کے وسط میں ہم ورلڈ ٹریڈ سینٹر دیکھنے کے لیے نیویارک گئے۔

اس وقت ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا شمار دنیا کی بلند ترین اہم عمارتوں میں کیا جاتا تھا۔ نیویارک اور نیوجرسی پورٹ اتھارٹی کی ملکیتی اس عمارت کی تعمیر 1966ء میں شروع ہوئی تھی۔ اس کا پہلا ٹاور 1970ء اور دوسرا1973ء میں کاروباری سرگرمیوں کے لیے کھولا گیاتھا۔ عمارت کی تعمیر پر لگ بھگ ڈیڑھ ارب ڈالر لاگت آئی تھی۔

ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے دونوں میناروں کی بلندی بالترتیب 1368 اور 1362 فٹ تھی۔جو اس وقت دنیا کی بلند ترین عمارت ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ سے تقریباً سو فٹ زیادہ تھی۔

ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو دنیا کی بلند ترین عمارت ہونے کا اعزاز صرف ایک سال تک حاصل رہا اور 1974ء میں یہ اعزازشکاگو میں تعمیر ہونے والی سیئرز بلڈنگ نے حاصل کرلیا۔ اب تو امریکہ سے باہر بھی کئی ممالک میں ان سے بھی کہیں زیادہ بلند ترین عمارتیں بن چکی ہیں۔

ورلڈ ٹریڈ سینٹر،چند یادیں
ورلڈ ٹریڈ سینٹر،چند یادیں

ورلڈ ٹریڈ سینٹر پراجیکٹ میں کاروباری مقاصد کے لیے تقریباً ایک کروڑ مربع فٹ جکہ فراہم کی گئی تھی اور ان عمارتوں کے اندر دنیا کے اکثر ممالک کے کاروباری اداروں کے دفاتر قائم تھے۔

ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں سیاحوں کے لیے بھی خصوصی انتظامات کیے گئے تھے اور انہیں عمارت کی چھت تک لے جانے کے لیے بڑے سائز کی برق رفتار لفٹس موجود تھیں۔جن پر دن بھر لمبی قطار لگی رہتی تھیں۔ ہم بھی ٹکٹ لے کر ایک قطار میں کھڑے ہوگئے۔

ٹکٹ گھر عمارت کی لابی میں تھا ، جس کی چھت سے دنیا کے اکثر ملکوں کے پرچم لٹک رہے تھے۔میرے سامنے پاکستان کا پرچم تھا اور میں لفٹ میں سوار ہونے تک اسے دیکھتا رہا تھا۔

پہلی لفٹ نے ہمیں غالباً 44 ویں منزل پر اتارا ۔ وہاں سے دوسری لفٹ ہمیں 78ویں منزل تک لے گئی اور تیسری لفٹ نے ہمیں غالباً 108ویں یا 109ویں منزل پر اتار دیا۔ وہاں ایک بہت بڑا سٹور تھا جس میں کھانے پینے کی چیزیں اور سوینیئر تھے۔میں نے وہاں سے کچھ تحائف خریدے ، جو آج بھی مجھے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی یاد دلاتے رہتےہیں۔

وہاں سے سیڑھیوں کے راستے ہم چھت پر چلے گئے۔سہ پہر ہورہی تھی اور مگر دھوپ میں تیزی باقی تھی اور نیچے پورا نیویارک سرمئی سی دھند میں لپٹا ہوادکھائی دے رہا تھا۔ پرسکون اور خوابیدہ سا۔سڑکوں پر ننھی ننھی گاڑیاں رواں تھیں۔ سمندر میں مجسمہ آزادی کے گرد کشتیاں تیر رہی تھیں اوردور ائیر پورٹ پر اترتے اور چڑھتے ہوئے ہوائی جہاز کھلونوں کی طرح لگ رہے تھے۔

ہم ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی چھت پر غالباً دو گھنٹے تک رہے اور وہاں نصب دور بینوں سے نیویارک کا نظارہ کرتے رہے۔وہاں گذارے ہوئے وہ دو گھنٹے آج میری یادوں کا ایک اہم حصہ ہیں۔

ورلڈ ٹریڈ سینٹر،چند یادیں
ورلڈ ٹریڈ سینٹر،چند یادیں

تیسری بار میں نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو چند ماہ پہلے دیکھا۔اس روز میں کسی کام کےسلسلے میں نیویارک گیاتھا ۔ مین ہیٹن سے گذرتے ہوئے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی یاد آئی اور میں اس جانب مڑ گیا جہاں کبھی آسمان سے باتیں کرتے ہوئے ٹاور موجود تھے ۔ سڑک پر سے گذرتے ہوئے وہاں بڑی بڑی کرنیں اور تعمیراتی سامان نظر آیا۔ نئی عمارتیں سرنکالتی ہوئی دکھائی دے رہی تھیں۔ یہاں پھر سے کاروباری مراکز قائم ہوجائیں گے۔ دہشت گرد حملے میں ہلا ک ہونے والے تقریباً تین ہزار افراد کی یاد میں میموریل سینٹر بن جائیں گے، اور چند برسوں میں زندگی پھر سے پہلے کی طرح رواں دوا ں ہوجائے گی۔

اس مقام سے چند بلاک کے فاصلے پر کوئی ڈیڑھ درجن افراد بینر اٹھائے ایک مجوزہ اسلامک سینٹر کے قیام کے خلاف مظاہرہ کررہے تھے۔ مجھے یاد آیا نائین الیون سے قبل جمعےکے روزمیں واشنگٹن کے مضافات میں واقع ایک چرچ میں نماز پڑھنے جاتاتھا جہاں سوڈیڑھ سو مسلمان جمع ہوتےتھے۔

نائین الیون نے دنیا بھر میں بہت کچھ بدل دیا ہے۔

XS
SM
MD
LG