واشنگٹن —
مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کی فوج کے ہاتھوں برطرفی کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور سابق صدر کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان دارالحکومت قاہرہ میں ہونے والی تازہ جھڑپوں میں کم از کم نو افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
مصر کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق تشدد کے واقعات منگل کو علی الصباح قاہرہ یونی ورسٹی کے نزدیک محمد مرسی کے حامیوں کے احتجاجی کیمپ کے نزدیک پیش آئے۔
اس مقام پر صدر مرسی اور ان کی جماعت 'اخوان المسلمون' کے ہزاروں حامی تین جولائی کو فوج کی جانب سے صدر کی برطرفی کے بعد سے احتجاجی دھرنا دیے ہوئے ہیں۔
اخوان کے رہنمائوں نے کہا ہے کہ ہلاکتیں مسلح افراد کی جانب سے پرامن مظاہرین پر حملے کے نتیجے میں ہوئی ہیں اور ہلاک ہونے والوں میں سے بیشتر ان کے کارکن ہیں۔
پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ دھرنے میں شریک اخوان کے سیکڑوں کارکنوں کی علاقے کے رہائشیوں، دکان داروں اور "دیگر لوگوں" کے ساتھ جھڑپیں ہوئی ہیں۔
لیکن بین الاقوامی میڈیا نے خبر دی ہے کہ ہلاکتیں محمد مرسی کے حامیوں اور ان کے مخالفین کے درمیان جھڑپوں کا نتیجہ ہیں۔ جھڑپوں کے دوران میں فریقین نے ایک دوسرے پر پتھرائو کیا جب کہ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔
مصر کے سرکاری اخبار 'الاہرام' کے مطابق محکمہ صحت کے ذمہ داران نے منگل کو ہونے والی جھڑپوں میں نو افراد کی ہلاکت اور 33 کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔
دارالحکومت میں پیر کو ہونے والی جھڑپوں میں بھی دو افراد ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد گزشتہ دو روز کے دوران میں صرف قاہرہ میں ہونے والے پرتشدد احتجاج کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 14 ہوگئی ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق قاہرہ یونی ورسٹی کے سامنے جھڑپوں کے مقام پر نذرِ آتش کی جانے والی کم از کم 15 گاڑیوں کے ڈھانچے موجود ہیں۔
سڑک پر خون کے دھبے اور ٹوٹے ہوئے شیشوں کے ٹکڑے بھی جابجا سیکھے جاسکتے ہیں۔ جھڑپوں کے دوران میں نزدیک واقع ٹریفک پولیس کے ایک اسٹیشن کو بھی آگ لگادی گئی ہے۔
پرتشدد واقعات اور ہلاکتوں کے باوجود علاقے میں 'اخوان المسلمون' کا دھرنا جاری ہے جس کے داخلی مقامات پر منتظمین نے لاٹھیوں سے لیس رضاکار تعینات کردیے ہیں۔
خیال رہے کہ مصری فوج کی جانب سے صدر مرسی کی برطرفی کے خلاف جاری احتجاج میں اب تک 100 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اخوان المسلمون نے فوج کے اقدام کو بغاوت قرار دیتے ہوئے صدر مرسی کی بحالی تک احتجاجی تحریک جاری رکھنے اور عبوری انتظامیہ کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
'اخوان' کی جانب سے منگل کو اپنی ویب سائٹ پر جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ حالیہ حملوں اور ہلاکتوں کے باوجود احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔
اخوان کا مرکزی احتجاجی کیمپ قاہرہ کے نواحی علاقے نصر سٹی میں قائم ہے جہاں گزشتہ تین ہفتوں سے ہزاروں مرد و خواتین صدر مرسی کی بحالی کے لیے دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق علاقے کے چند مکینوں نے پبلک پراسیکیوٹر کو ایک درخواست دی ہے جس میں احتجاجی دھرنے کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
'رائٹرز' کے مطابق امکان ہے کہ استغاثہ اس درخواست پر عن قریب عدالت سے کوئی حکم حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا جسے بنیاد بنا کر فوج اخوان کے مظاہروں کے خلاف کریک ڈائون کرسکے گی۔
مصر کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق تشدد کے واقعات منگل کو علی الصباح قاہرہ یونی ورسٹی کے نزدیک محمد مرسی کے حامیوں کے احتجاجی کیمپ کے نزدیک پیش آئے۔
اس مقام پر صدر مرسی اور ان کی جماعت 'اخوان المسلمون' کے ہزاروں حامی تین جولائی کو فوج کی جانب سے صدر کی برطرفی کے بعد سے احتجاجی دھرنا دیے ہوئے ہیں۔
اخوان کے رہنمائوں نے کہا ہے کہ ہلاکتیں مسلح افراد کی جانب سے پرامن مظاہرین پر حملے کے نتیجے میں ہوئی ہیں اور ہلاک ہونے والوں میں سے بیشتر ان کے کارکن ہیں۔
پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ دھرنے میں شریک اخوان کے سیکڑوں کارکنوں کی علاقے کے رہائشیوں، دکان داروں اور "دیگر لوگوں" کے ساتھ جھڑپیں ہوئی ہیں۔
لیکن بین الاقوامی میڈیا نے خبر دی ہے کہ ہلاکتیں محمد مرسی کے حامیوں اور ان کے مخالفین کے درمیان جھڑپوں کا نتیجہ ہیں۔ جھڑپوں کے دوران میں فریقین نے ایک دوسرے پر پتھرائو کیا جب کہ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔
مصر کے سرکاری اخبار 'الاہرام' کے مطابق محکمہ صحت کے ذمہ داران نے منگل کو ہونے والی جھڑپوں میں نو افراد کی ہلاکت اور 33 کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔
دارالحکومت میں پیر کو ہونے والی جھڑپوں میں بھی دو افراد ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد گزشتہ دو روز کے دوران میں صرف قاہرہ میں ہونے والے پرتشدد احتجاج کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 14 ہوگئی ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق قاہرہ یونی ورسٹی کے سامنے جھڑپوں کے مقام پر نذرِ آتش کی جانے والی کم از کم 15 گاڑیوں کے ڈھانچے موجود ہیں۔
سڑک پر خون کے دھبے اور ٹوٹے ہوئے شیشوں کے ٹکڑے بھی جابجا سیکھے جاسکتے ہیں۔ جھڑپوں کے دوران میں نزدیک واقع ٹریفک پولیس کے ایک اسٹیشن کو بھی آگ لگادی گئی ہے۔
پرتشدد واقعات اور ہلاکتوں کے باوجود علاقے میں 'اخوان المسلمون' کا دھرنا جاری ہے جس کے داخلی مقامات پر منتظمین نے لاٹھیوں سے لیس رضاکار تعینات کردیے ہیں۔
خیال رہے کہ مصری فوج کی جانب سے صدر مرسی کی برطرفی کے خلاف جاری احتجاج میں اب تک 100 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اخوان المسلمون نے فوج کے اقدام کو بغاوت قرار دیتے ہوئے صدر مرسی کی بحالی تک احتجاجی تحریک جاری رکھنے اور عبوری انتظامیہ کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
'اخوان' کی جانب سے منگل کو اپنی ویب سائٹ پر جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ حالیہ حملوں اور ہلاکتوں کے باوجود احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔
اخوان کا مرکزی احتجاجی کیمپ قاہرہ کے نواحی علاقے نصر سٹی میں قائم ہے جہاں گزشتہ تین ہفتوں سے ہزاروں مرد و خواتین صدر مرسی کی بحالی کے لیے دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق علاقے کے چند مکینوں نے پبلک پراسیکیوٹر کو ایک درخواست دی ہے جس میں احتجاجی دھرنے کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
'رائٹرز' کے مطابق امکان ہے کہ استغاثہ اس درخواست پر عن قریب عدالت سے کوئی حکم حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا جسے بنیاد بنا کر فوج اخوان کے مظاہروں کے خلاف کریک ڈائون کرسکے گی۔