سماجی رابطے کی ویب سائٹ پرنوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی سے پاکستان میں ہندو لڑکیوں کی مبینہ طور پر جبری مذہب کی تبدیلی اور کم عمری میں شادی سے متعلق ایک ٹویٹر صارف انشو سنگھ نے سوال کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ان دونوں معاملات پر ان کے خیالات جاننا چاہے ہیں۔
انشو سنگھ نے ملالہ کو ٹویٹ کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ پاکستان میں اغوا ہونے والی ہندو لڑکیوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں مذہبی اقلیتوں کو لاحق خطرات اور مسائل کے بارے میں آپ کے کیا خیالات ہیں؟
انشو سنگھ نے یہ سوال پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر گھوٹکی میں ہندو لڑکیوں کی مبینہ طور پر جبری مذہب کی تبدیلی کے پس منظر میں کیا تھا جس پر ملالہ یوسف زئی نے جواب دیا کہ "کم عمری کی شادیاں غلط ہیں۔ کسی بھی اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکی کی شادی نہیں ہونی چاہئے۔ لڑکی کو پہلے اپنی تعلیم مکمل کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔ اگر لڑکی شادی کے لئے رضا مند نہ ہو تو اسے مجبور نہیں کرنا چاہئے۔ میں لڑکیوں کی جبری شادی کی بھرپور مذمت کرتی ہوں۔"
سوشل میڈیا پر اپنی ایک ویڈیو میں ملالہ کا مزید کہنا تھا کہ "یہ لڑکی کا ذاتی فیصلہ ہونا چاہیے خصوصا کسی کم عمر لڑکی کو زبردستی کسی مذہب کو اختیار کرنے پر مجبور نہیں کرنا چاہئے، چاہے پاکستان میں ہندو لڑکیوں کو نشانہ بنایا جائے، میانمار میں مسلمان لڑکیوں یا سری لنکا میں کرسچن لڑکیوں کو، دنیا کے کسی بھی حصے میں یہ ہونا غلط ہے اور میں اس کی شدید مخالفت کرتی ہوں۔"
اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟
پاکستان میں روایات اور کلچر کے نام پر کم عمری کی شادیاں کردی جاتی ہیں۔ نومبر 2018 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً 21 فیصد لڑکیوں کی شادیاں 18 سال کی عمر سے پہلے کر دی گئیں۔
یونیورسٹی آف برمنگھم کی 2018 کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ہر سال مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والی تقریباً ایک ہزار خواتین اور لڑکیوں کو اغوا کر لیا جاتا ہے اور اغوا کار زبردستی ان کا مذہب تبدیل کروا کر ان سے شادیاں کرتے ہیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے امرناتھ موٹومل کے مطابق 20 یا اس سے زیادہ ہندو لڑکیوں کو ہرمہینے اغوا کیا جاتا اور زبردستی مذہب تبدیل کروایا جاتا ہے۔
یونیسف کی2017 کی رپورٹ کے مطابق 3 فیصد لڑکیوں کی شادیاں 15 سال کی عمر سے پہلے اور 21 فیصد کی 18 سال کی عمر سے پہلے کردی جاتی ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق جب اتنی بڑی تعداد میں کم عمر لڑکیوں کی شادیاں کی جاتی ہیں تو اس کا نتیجہ ماں اور بچوں کی بڑی تعداد میں اموات کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں مٹرنل مورٹیلٹی ریشو (ایم ایم آر) پیدائش کے وقت ماں کی موت کے واقعات ایک لاکھ میں سے 276 ہے جبکہ نومولود بچوں کی اموات کی شرح ایک ہزار میں 55 ہے۔