حکومتوں کے پالیسی فیصلوں اور معیشت کے باہمی تعلق پر تحقیق کرنے والے دو امریکی ماہرین تھامس سارجنٹ اور کرسٹوفر سمز کو 2011ء کے معاشیات کے 'نوبیل' انعام کا حق دار قرار دیا گیا ہے۔
سوئیڈن کی 'رائل اکیڈمی' آف سائنسز' کی جانب سے پیر کو کیے گئے اعلان کے مطابق دونوں امریکی پروفیسرز کو یہ انعام "بنیادی معاشیات کی وجوہات اور اثرات پر کی گئی ان کی تحقیق" کے اعتراف میں دیا گیا ہے۔
اعزاز کا فیصلہ کرنے والی کمیٹی کا کہنا ہے کہ دونوں ماہرین نے ایسے طریقہ ہائے کار مرتب کیے جن کے ذریعے معاشی ترقی اور افراطِ زر پر شرحِ سود میں عارضی اضافے یا ٹیکس میں کمی کے ممکنہ اثرات اور ان جیسے دیگر سوالات کے جواب مل سکتے ہیں۔
انعام یافتہ کرسٹوفر سمز کا کہنا ہے کہ گو کہ ان کی یہ تحقیق 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں کی گئی ہے لیکن ان کے بقول وہ سمجھتے ہیں کہ یہ موحودہ عالمی اقتصادیات کو "درپیش بحران سے نکلنے کی راہ تلاش کرنے میں بھی معاون ثابت ہوسکتی ہے"۔
واضح رہے کہ امریکہ اور کئی یورپی ممالک کی حکومتیں اور مرکزی بینک قرضوں کے بوجھ، برھتی ہوئی بے روزگاری اور سست شرحِ نمو سے نبٹنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
انعام یافتہ 68 سالہ سارجنٹ 'نیویارک یونی ورسٹی' سے منسلک ہیں جبکہ ان ہی کے ہم عمر سمز 'پرینسٹن یونی ورسٹی' کے پروفیسر ہیں۔ دونوں ماہرین نے اپنی تحقیق نجی طور پر ستر اور اسی کی دہائی میں کی تھی تاہم 'رائل اکیڈمی' کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں پروفیسرز کے مرتب کردہ اصول موجودہ دور میں بھی بنیادی معاشی مسائل کے تجزیے کے لیے انتہائی اہم ہیں۔
معاشیات کے 'نوبیل' اعزاز کے اعلان کے ساتھ ہی رواں برس دنیا کے سب سے بڑے ان اعزازات کے اعلان کا سلسلہ مکمل ہوگیا ہے۔
معاشیات کے شعبے میں دیے جانے والا یہ اعزاز دراصل ان 'نوبیل' انعامات میں شامل نہیں جن کا آغاز 1895ء میں کیا گیا تھا۔ اس اعزاز کا اصل نام 'سرویجیس رکس بینک پرائز ان اکنامک سائنسز' ہےاور اس کا اجرا 1968ء میں 'سوئیڈش سینٹرل بینک' کی جانب سے الفریڈ نوبیل کی یاد میں کیا گیا۔