جمعے کے روز حکومت کے مخالف لیوشیاؤبو کو جو چین میں قید کی سزا کاٹ رہے ہیں، امن کا نوبیل انعام دیا جارہاہے۔ چین کی حکومت اس دن کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگرچہ چین میں سیاسی اصلاحات پر اس اعزاز کے دیے جانے کا اثر فوری طور پر برائے نام ہوگا ، لیکن لیوکو یہ انعام ملنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ چینی معاشرے پر حکومت کے سخت کنٹرول کے باوجود،تبدیلی کے لیئے مسلسل دباؤ پڑ رہا ہے۔
چین نے دنیا کے ملکوں کو انتباہ کیا ہے کہ وہ جمعے کے روز اوسلو میں نوبیل انعام کی تقریب میں نہ جائیں۔ اس نے اس ایوارڈ کو گستاخانہ قرار دیا ہے اور بین الاقوامی برادری پر چین کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
وامے انتھونی اپیا مصنفین کے گروپ پین امریکن سینٹر کے صدر ہیں۔ یہ گروپ آزادیٔ اظہار کے فروغ کے لیئے کام کرتا ہے ۔ انہوں نے امریکی کانگریس کی ایک کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا کہ بیجنگ کے رد عمل کے باوجود، لیو کے ساتھ کیا جانے والا سلوک بین الااقوامی معاملہ ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک سال سے زیادہ عرصے تک لیو شیاؤبو کو حراست میں رکھنا اور پھر انہیں 11 سال قید کی سزا دینا، ان کے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ بنیادی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔ چین نے خود اس بات کی ضمانت دی ہے کہ یہ کیس محض چین کا اندرونی معاملہ نہیں ہے اور نہ ایسا ہو سکتا ہے۔
چین میں حکومت نے لیوشیاؤبو کو نوبیل انعام ملنے کے بارے میں خبروں تک رسائی کو محدود کر دیا ہے ۔ انعام کے بارے میں غیر ملکی مضامین انٹرنیٹ پر بلاک کر دیے گئے ہیں اور لیو کے بارے میں ناقدانہ مضامین شائع کیئے جا رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے فیلم کین کہتےہیں کہ بیشتر چینیوں کولیو کے بارے میں منفی چیزیں بتائی گئی ہیں، اور بہت کم لوگ ان سے واقف ہیں۔ کانگریس کی اسی کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے کین نے کہا کہ چین کی طرف سے لیو کو جو توجہ دی جا رہی ہے، اس کی وجہ سےلیو اور ان کے خیالات زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ جائیں گے۔
ان کا کہناتھا کہ لیوشیاؤبوکو نوبیل انعام ملنے سے چینی حکومت کو جو گھاؤ لگا ہے، وہ اس وقت تک رستا رہے گا جب تک وہ قید میں ہیں۔ جب تک یہ خبر موجود رہے گی کہ چینی حکومت نے نوبیل انعام یافتہ لیوشاؤبوکو قید میں ڈالا ہوا ہے ، چینی حکومت کو شدید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کین کہتے ہیں کہ انہیں امید ہے کہ اس ایوارڈ سے یہ بحث شروع ہو جائے گی کہ مستقبل میں اس قسم کے کیسوں میں کیا کیا جانا چاہیئے ۔ لیوکے ایوارڈ کا اعلان ہونے کے فوراً بعد، کمیونسٹ پارٹی کے 23 سابق رٹائرڈ عہدے داروں اور دانشوروں نے ایک خط جاری کیا جس میں لیوکے انتخاب کے شاندار کہا گیا تھا۔ خط میں چینی حکومت پر زور دیا گیا تھا کہ وہ تقریر کی آزادی پر سنسر شپ ختم کر دے۔
کین کہتے ہیں کہ یہ ایک رجحان کی ابتدا ہے جو بڑھتا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ اعتدال پسندوں اور ان لوگوں کے درمیان بحث و تمحیث ہو گی جنھوں نے لیوشیاؤبو کو سزا دلانے کی کوشش کی اور کامیاب رہے ۔
لیوشیاؤبو گیارہ سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں ۔ چینی حکومت نے انہیں مملکت کے خلاف تخریب کاری کا مجرم قرار دیا ہے ۔ انھوں نے بعض دوسرے لوگوں کے ساتھ مِل کر ایک آن لائن عرضداشت بھی تحریر کی تھی جس میں چین میں جمہوری اصلاحات کے لیئے کہا گیا تھا۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ چینی حکام انٹرنیٹ تک رسائی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن انٹرنیٹ کو احتجاجی مظاہرے منظم کرنے اور عوام کو کرپشن اور مقامی شکایتوں کے بارے میں با خبر رکھنے کے لیئے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ نیو یارک میں قائم کونسل آن فارن ریلیشنز کی الزبیتھ اکانومی نے امریکی کانگریس کی کمیٹی کو بتایا کہ چینی لیڈروں کو تشویش یہ ہے کہ معلومات تک رسائی پر ان کا کنٹرول ختم نہ ہو جائے ۔
ان کا کہناتھا کہ انٹرنیٹ کو لوگوں کو سیاسی طور پر منظم کرنے کے لیئے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ آپ اس کے ذریعے 7,000 لوگوں کو شیامن میں احتجاج کے لیئے جمع کر سکتے ہیں۔ آپ انٹرنیٹ پر اپنے غم و غصے کے اظہار سے حکام پر دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ اس طرح ہر وہ چینی جس کے پا س سیل فون ہے اور انٹرنیٹ تک رسائی ہے، صحافی بن جاتا ہے۔
جہاں تک شیاؤبو کا تعلق ہے، تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بالآخر چینی لیڈر بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے انہیں رہا کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔