واشنگٹن —
تین ہفتوں کی مخاصمانہ بیان بازی کے بعد، شمالی کوریا نے اپنا تیسرا ایٹمی تجربہ کر لیا ہے۔ نیوکلیئر اسلحہ کا یہ پروگرام 1960 کی دہائی میں شروع کیا گیا تھا۔
ابتدائی اندازوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ شمالی کوریا کا تازہ ترین نیوکلیئر ٹیسٹ ، اس کا سب سے زیادہ طاقتور ٹیسٹ تھا ۔ امریکہ کے صدر براک اوباما نے اسے انتہائی اشتعال انگیز اقدام قرار دیا ۔ ان کی طرف سے اس دھماکے کی فوری مذمت کی باز گشت، جنوبی کوریا، جاپان، چین اور روس سمیت، ساری دنیا میں سنی گئی ۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے سابق عہدے دار مچل ریئز کہتے ہیں کہ منگل کے روز کیے جانے والے زیرِ زمین دھماکے سے اس بات کی مزید تصدیق ہوئی ہے کہ پیانگ یانگ بڑے منظم اور سوچے سمجھے انداز میں، بلسٹک میزائل اور نیوکلیئر ہتھیاروں کی صلاحیت بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بیک وقت دونوں شعبوں میں یہ کوشش انتہائی تشویشناک ہے۔
’’یہ بات کچھ کم پریشان کن نہیں کہ وہ ان دونوں شعبوں میں الگ الگ کام کر رہے ہیں۔ لیکن اگر ان دونوں شعبوں کو ملا لیا جائے تو پھر اس سے امریکہ اور علاقے میں ہمارے دوستوں اور اتحادیوں کے لیے سنگین خطرات پیدا ہو جاتے ہیں۔‘‘
تجزیہ کار بروس کلنگنر نے سی آئی اے میں ملازمت کے دوران برسوں تک شمالی کوریا پر تحقیق کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شمالی کوریا کی پیش رفت سے، جس میں گذشتہ دسمبر میں دور مار میزائل کا کامیاب تجربہ شامل ہے، امریکہ کے لیے خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
’’جنوبی کوریا کے عہدے داروں نے جب میزائل کے ملبے کو سمندر کی تہہ سے بر آمد کیا، تو انھوں نے اندازہ لگایا کہ یہ راکٹ 6,000 بلکہ 10,000 میل تک گیا ہوگا جس سے نہ صرف ہوائی اور الاسکا کے لیے بلکہ بر اعظم امریکہ کے کچھ حصوں کے لیے خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔‘‘
شمالی کوریا کا دعویٰ ہے کہ منگل کے ٹیسٹ میں ایک چھوٹا اور ہلکا نیوکلیئر آلہ استعمال کیا گیا جس کی دھماکہ کرنے کی صلاحیت پہلے کے مقابلے میں زیادہ تھی ۔
جنوبی کوریا کی وزارتِ دفاع نے کہا کہ اس دھماکے کی شدت چھ اور سات کلو ٹن کے برابر تھی۔ یہ طاقت شمالی کوریا کے دو پچھلے ٹیسٹوں کے مقابلے میں جو 2006 اور 2009 میں کیے گئے تھے ، زیادہ تھی ، لیکن یہ امریکہ کے آج کل استعمال کیے جانے والے سب سے زیادہ طاقتور ہتھیاروں سے کہیں کم تھی۔ امریکی ہتھیاروں کی طاقت تقریباً ایک ہزار کلوٹنز ہے۔
کلنگنر کہتے ہیں کہ مبصرین نے اکثر شمالی کوریا کی پیش رفت کو مسترد کر دیا کیوں کہ اس کے دور مار میزائلوں کے ٹیسٹ، گذشتہ دسمبر کی لانچ سے پہلے تک ، ناکام ہوتے رہے تھے ۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس ٹیسٹ سے ظاہر ہو گیا کہ کہ شمالی کوریا مدار میں سیٹلائٹ بھیج سکتا ہے۔ یہ وہی صلاحیت ہے جو دنیا میں کسی بھی جگہ بم پہنچانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔
تجزیہ کار ریئز کہتے ہیں کہ اس دھماکے نے اوباما انتظامیہ اور چین، جنوبی کوریا اور جاپان میں لیڈروں کے ایک نئے گروپ میں شدید مخمصے میں ڈال دیا ہے۔ ’’بنیادی بات یہ ہے کہ شمالی کوریا نے ایک اسٹریٹجک فیصلہ کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ مکمل طور سے نیوکلیر اسلحہ والی مملکت بنے گا۔ اس وقت ہمارے سامنے چیلنج یہ ہے کہ امریکہ، اور علاقے میں ہمارے دوست اور اتحادی، اور خاص طور سے چینی، اس سلسلے میں کیا کریں گے۔‘‘
کلنگنر کہتے ہیں کہ شمالی کوریا کے ساتھ چین کے اقتصادی تعلقات میں جو اضافہ ہوا ہے ، اسکی روشنی میں انہیں امید نہیں کہ چین منگل کے ٹیسٹ پر کسی خاص ردعمل کا اظہار کرے گا۔
’’اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بیجنگ کا اثر و رسوخ کتنا کم ہے، یا یہ کہ اس میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی خواہش کتنی کم ہے ۔ بلکہ شمالی کوریا کے ساتھ اس کے جتنے گہرے اقتصادی تعلقات قائم ہو گئے ہیں، ان کی وجہ سے شمالی کوریا کے لیے چھ فریقی مذاکرات میں واپس جانے کی ترغیب اتنی ہی کم ہو گئی ہے۔‘‘
دھماکے کے بعد، پیانگ یانگ نے کہا کہ اس ٹیسٹ سے ظاہر ہوا ہے کہ اس کی نیوکلیئر طاقت میں تنوع پیدا ہو گیا ہے۔ اس سے یہ سوالات پیدا ہوئے ہیں کہ کیا شمالی کوریا نے پچھلے ٹیسٹوں کے برعکس جن میں دوبارہ پراسس کیا ہوا پلوٹونیم استعمال کیا گیا تھا، اس ٹیسٹ میں افژودہ شدہ یورینیم استعمال کیا ہے۔
یہ بات امریکہ ، جنوبی کوریا اور جاپان کے لیے پریشان کن ہے کیوں کہ شمالی کوریا کے پاس پلوٹونیم کی صرف اتنی مقدار ہے جو چھ سے آٹھ بموں کے لیے کافی ہوگی، لیکن وہ مستقبل میں افزودہ شدہ یورینیم تیار کر سکتا ہے۔
ریئز کہتے ہیں کہ واشنگٹن کو سیول پر دباؤ ڈالنا چاہیئے کہ وہ جاپانیوں کو اپنی انٹیلی جینس میں شریک کرے کیوں کہ اس طرح اس خطرے کا منظم انداز سے جواب دیا جا سکے گا۔ انھوں نے یہ انتباہ بھی کیا کہ تہران انتہائی غور سے یہ دیکھ رہا ہے کہ دنیا اس سلسلے میں کیا کرتی ہے۔
’’اگر امریکہ کسی قسم کی پابندیاں نہیں لگاتا، شمالی کوریا کو کسی قسم کی سزا نہیں دیتا، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تہران کو کھلی چھٹی مل جائے گی ، یا کم از کم اسے یہ اشارہ ملے گا کہ وہ بھی یہی راہ اختیار کر سکتا ہے، اور اسے کسی قسم کے نتائج نہیں بھگتنے پڑیں گے۔‘‘
اگرچہ دنیا کی کوئی بھی بڑی طاقت یہ نہیں چاہتی کہ شمالی کوریا یا ایران نیوکلیر اسلحہ سے لیس ملک بنیں، یہ سوال ابھی باقی ہے کہ کیا ان میں اتنی اہلیت ہے کہ وہ ان ملکوں کو نیوکلیئر اسلحہ تیار کرنے سے روک سکیں۔
ابتدائی اندازوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ شمالی کوریا کا تازہ ترین نیوکلیئر ٹیسٹ ، اس کا سب سے زیادہ طاقتور ٹیسٹ تھا ۔ امریکہ کے صدر براک اوباما نے اسے انتہائی اشتعال انگیز اقدام قرار دیا ۔ ان کی طرف سے اس دھماکے کی فوری مذمت کی باز گشت، جنوبی کوریا، جاپان، چین اور روس سمیت، ساری دنیا میں سنی گئی ۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے سابق عہدے دار مچل ریئز کہتے ہیں کہ منگل کے روز کیے جانے والے زیرِ زمین دھماکے سے اس بات کی مزید تصدیق ہوئی ہے کہ پیانگ یانگ بڑے منظم اور سوچے سمجھے انداز میں، بلسٹک میزائل اور نیوکلیئر ہتھیاروں کی صلاحیت بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بیک وقت دونوں شعبوں میں یہ کوشش انتہائی تشویشناک ہے۔
’’یہ بات کچھ کم پریشان کن نہیں کہ وہ ان دونوں شعبوں میں الگ الگ کام کر رہے ہیں۔ لیکن اگر ان دونوں شعبوں کو ملا لیا جائے تو پھر اس سے امریکہ اور علاقے میں ہمارے دوستوں اور اتحادیوں کے لیے سنگین خطرات پیدا ہو جاتے ہیں۔‘‘
تجزیہ کار بروس کلنگنر نے سی آئی اے میں ملازمت کے دوران برسوں تک شمالی کوریا پر تحقیق کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شمالی کوریا کی پیش رفت سے، جس میں گذشتہ دسمبر میں دور مار میزائل کا کامیاب تجربہ شامل ہے، امریکہ کے لیے خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
’’جنوبی کوریا کے عہدے داروں نے جب میزائل کے ملبے کو سمندر کی تہہ سے بر آمد کیا، تو انھوں نے اندازہ لگایا کہ یہ راکٹ 6,000 بلکہ 10,000 میل تک گیا ہوگا جس سے نہ صرف ہوائی اور الاسکا کے لیے بلکہ بر اعظم امریکہ کے کچھ حصوں کے لیے خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔‘‘
شمالی کوریا کا دعویٰ ہے کہ منگل کے ٹیسٹ میں ایک چھوٹا اور ہلکا نیوکلیئر آلہ استعمال کیا گیا جس کی دھماکہ کرنے کی صلاحیت پہلے کے مقابلے میں زیادہ تھی ۔
جنوبی کوریا کی وزارتِ دفاع نے کہا کہ اس دھماکے کی شدت چھ اور سات کلو ٹن کے برابر تھی۔ یہ طاقت شمالی کوریا کے دو پچھلے ٹیسٹوں کے مقابلے میں جو 2006 اور 2009 میں کیے گئے تھے ، زیادہ تھی ، لیکن یہ امریکہ کے آج کل استعمال کیے جانے والے سب سے زیادہ طاقتور ہتھیاروں سے کہیں کم تھی۔ امریکی ہتھیاروں کی طاقت تقریباً ایک ہزار کلوٹنز ہے۔
کلنگنر کہتے ہیں کہ مبصرین نے اکثر شمالی کوریا کی پیش رفت کو مسترد کر دیا کیوں کہ اس کے دور مار میزائلوں کے ٹیسٹ، گذشتہ دسمبر کی لانچ سے پہلے تک ، ناکام ہوتے رہے تھے ۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس ٹیسٹ سے ظاہر ہو گیا کہ کہ شمالی کوریا مدار میں سیٹلائٹ بھیج سکتا ہے۔ یہ وہی صلاحیت ہے جو دنیا میں کسی بھی جگہ بم پہنچانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔
تجزیہ کار ریئز کہتے ہیں کہ اس دھماکے نے اوباما انتظامیہ اور چین، جنوبی کوریا اور جاپان میں لیڈروں کے ایک نئے گروپ میں شدید مخمصے میں ڈال دیا ہے۔ ’’بنیادی بات یہ ہے کہ شمالی کوریا نے ایک اسٹریٹجک فیصلہ کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ مکمل طور سے نیوکلیر اسلحہ والی مملکت بنے گا۔ اس وقت ہمارے سامنے چیلنج یہ ہے کہ امریکہ، اور علاقے میں ہمارے دوست اور اتحادی، اور خاص طور سے چینی، اس سلسلے میں کیا کریں گے۔‘‘
کلنگنر کہتے ہیں کہ شمالی کوریا کے ساتھ چین کے اقتصادی تعلقات میں جو اضافہ ہوا ہے ، اسکی روشنی میں انہیں امید نہیں کہ چین منگل کے ٹیسٹ پر کسی خاص ردعمل کا اظہار کرے گا۔
’’اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بیجنگ کا اثر و رسوخ کتنا کم ہے، یا یہ کہ اس میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی خواہش کتنی کم ہے ۔ بلکہ شمالی کوریا کے ساتھ اس کے جتنے گہرے اقتصادی تعلقات قائم ہو گئے ہیں، ان کی وجہ سے شمالی کوریا کے لیے چھ فریقی مذاکرات میں واپس جانے کی ترغیب اتنی ہی کم ہو گئی ہے۔‘‘
دھماکے کے بعد، پیانگ یانگ نے کہا کہ اس ٹیسٹ سے ظاہر ہوا ہے کہ اس کی نیوکلیئر طاقت میں تنوع پیدا ہو گیا ہے۔ اس سے یہ سوالات پیدا ہوئے ہیں کہ کیا شمالی کوریا نے پچھلے ٹیسٹوں کے برعکس جن میں دوبارہ پراسس کیا ہوا پلوٹونیم استعمال کیا گیا تھا، اس ٹیسٹ میں افژودہ شدہ یورینیم استعمال کیا ہے۔
یہ بات امریکہ ، جنوبی کوریا اور جاپان کے لیے پریشان کن ہے کیوں کہ شمالی کوریا کے پاس پلوٹونیم کی صرف اتنی مقدار ہے جو چھ سے آٹھ بموں کے لیے کافی ہوگی، لیکن وہ مستقبل میں افزودہ شدہ یورینیم تیار کر سکتا ہے۔
ریئز کہتے ہیں کہ واشنگٹن کو سیول پر دباؤ ڈالنا چاہیئے کہ وہ جاپانیوں کو اپنی انٹیلی جینس میں شریک کرے کیوں کہ اس طرح اس خطرے کا منظم انداز سے جواب دیا جا سکے گا۔ انھوں نے یہ انتباہ بھی کیا کہ تہران انتہائی غور سے یہ دیکھ رہا ہے کہ دنیا اس سلسلے میں کیا کرتی ہے۔
’’اگر امریکہ کسی قسم کی پابندیاں نہیں لگاتا، شمالی کوریا کو کسی قسم کی سزا نہیں دیتا، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تہران کو کھلی چھٹی مل جائے گی ، یا کم از کم اسے یہ اشارہ ملے گا کہ وہ بھی یہی راہ اختیار کر سکتا ہے، اور اسے کسی قسم کے نتائج نہیں بھگتنے پڑیں گے۔‘‘
اگرچہ دنیا کی کوئی بھی بڑی طاقت یہ نہیں چاہتی کہ شمالی کوریا یا ایران نیوکلیر اسلحہ سے لیس ملک بنیں، یہ سوال ابھی باقی ہے کہ کیا ان میں اتنی اہلیت ہے کہ وہ ان ملکوں کو نیوکلیئر اسلحہ تیار کرنے سے روک سکیں۔