افغانستان سے ملحقہ شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کے تکمیل کے بعد معمول کی زندگی بتدریج بحال ہو رہی ہے مگر دہشت گردی اور آپریشن سے تباہ اور متاثر ہونے والے گھروں اور املاک کی ازسرنو تعمیر مقامی لوگوں کے لئے بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ جبکہ ابھی ہزاروں خاندانوں کی واپسی باقی ہے۔
سرکاری طور پر تباہ اور متاثر ہونے والے مکانات اور دیگر املاک کے اعداد و شمار مکمل کر لیے گئے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق 44 ہزار مکان مکمل طور پر تباہ ہوئے جبکہ جزوی طور پر متاثر ہوئے والے مکانوں کی تعداد 66 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ شمالی وزیرستان بھر میں 27 ہزار دوکانیں بھی تباہ ہوئیں۔
حکومت نے مکمل طور پر تباہ ہونے والے فی مکان چار لاکھ روپے جبکہ جزوی متاثر ہونے والے مکان کے لئے ایک لاکھ 60 ہزار روپے معاوضہ طے کیا ہے۔ مگر زیادہ تر قبائلی حکومت کے اس فیصلے سے مطمئن دکھائی نہیں دیتے۔ ان کا کہنا ہے کہ چار لاکھ روپے سے تو ایک چھوٹا سا کمرہ حتی کہ غسل خانہ تک تعمیر کرنا مشکل ہے۔
میر علی سے تعلق رکھنے والے والے احسان اللہ نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں حکومت کے طرف دیئے جانے والے معاوضے کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ کاروائی کے دوران تباہ ہونے والے مکانات ایک یاد و نہیں بلکہ بہت سے کمروں پر مشتمل تھے اور ان گھروں میں لاکھوں روپے کے دیگر املاک بھی موجود تھیں۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے کہا کہ یہ بالکل درست ہے کہ چار لاکھ روپے سے کوئی گھر نہیں بن سکتا مگر حکومت کے وسائل بہت محدود ہیں۔ اس معاوضے کا مقصد صرف متاثر ہ قبائلیوں کی حوصلہ افزائی ہے۔
عسکریت پسندی اور جنگجوؤں کے خلاف کی جانیوالی کارائیوں میں دیگر املاک کے علاوہ 73 پٹرول پمپ بھی تباہ ہوئے تھے۔ پٹرول پمپ مالکان کی تنظیم کے صدر رقیب خان نے بتایا کہ واپسی کے بعد مالکان نے ازخود 30 پمپ بحال کردئیے ہیں جبکہ باقی ابھی تک بند پڑے ہیں۔ اس سلسلے میں اُنہوں نے حکومت سے متاثرہ مالکان کے لئے مناسب معاوضے کی ادائیگی کا مطالبہ کیا۔
ملک رقیب نے یاد دلایا کہ چند دن پہلے اُنہوں نے مطالبات کے حق میں ہڑتال کی تھی جسے حکام کی یقین دہانی پر موخر کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ کیے گئے تو پھر غیرمعینہ مدت کے لیے تمام پٹرول پمپ بند کر دئیے جائیں گے۔
ملک رقیب نے حکومت کے طرف سے دیئے جانے والے معاوضے کے رقم کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ شمالی وزیرستان کے مختلف علاقوں، بستیوں اور دیہاتوں میں آپریشن کے دوران تباہ ہونے والے مکانوں اور گھروں کا ملبہ ہر آنے والے شخص کے توجہ کا مرکز بنتا ہے۔ ملبے کے ڈھیروں میں سے ٹوٹے پھوٹے مکانوں،حجروں، اور دکانوں کے دروازے اور کھڑکیاں بھی دکھائی دیتی ہیں۔
واپس آنے والے قبائلیوں کا کہنا ہے کہ سروے کے دوران متعلقہ اہل کار اور عہدے دار رشوت طلب کرتے ہیں اور رشوت کی ادائیگی کے بعد ہی انہیں معاوضے کی رقم کے چیک دیے جاتے ہیں۔
فوجی آپریشن کے ضرب عضب کے دوران جون 2014 میں شمالی وزیرستان کے زیادہ تر علاقوں سے لوگوں نے نقل مکانی کی تھی۔
سابق قبائلی علاقوں میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے (ایف ڈی ایم اے) کے ترجمان احسان داوڑ کا کہنا ہے کہ نقل مکانی کرنے والوں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ سات ہزار خاندان تھی، جن میں اب تک 80 فیصد سے زیادہ خاندان واپس آ چکے ہیں، جبکہ 15 ہزارکے لگ بھگ خاندانوں کی واپسی ابھی تک نہیں ہوئی، کیونکہ سیکورٹی فورسز نے بعض علاقوں کو ابھی تک کلیر نہیں کیا۔
پاک افغان سرحد سے ملحقہ بعض علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے افغانستان کے صوبے خوست کی طرف نقل مکانی کی تھی، جن میں سے 6 ہزار خاندانوں کی واپسی ہوئی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر بنوں کے قریب بکاخیل کیمپ میں رہائش پذیر ہیں۔ بکاخیل کیمپ میں مجموعی طور ہر 2175 خاندان زندگی بسر کر رہے ہیں۔