افغانستان کی نیشنل سیکیورٹی کونسل (این ایس سی) نے کہا ہے کہ گزشتہ ہفتے طالبان نے افغانستان کے 21 صوبوں میں حملے کیے۔ ان حملوں میں 79 شہری ہلاک جب کہ 218 زخمی ہوئے۔
نیشنل سیکیورٹی کونسل کے مطابق حالیہ اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ طالبان کے حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکتوں میں 300 فی صد اضافہ ہو گیا ہے۔
افغانستان کے آزاد انسانی حقوق کمیشن نے کہا ہے کہ رمضان کے تین ہفتوں میں عام شہریوں کی ہلاکتوں میں رمضان سے قبل ہونے والی ہلاکتوں کے مقابلے میں اضافہ ہوا ہے۔
آزاد انسانی حقوق کمیشن کے نائب سربراہ نعیم نذاری کا کہنا ہے کہ عام شہریوں کی حفاظت کے لیے افغان حکومت کو سیکیورٹی پالیسی کا جائزہ لینا چاہیے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ حکومت کو عام شہریوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنے چاہیئیں۔
افغان حکومت کے اقدامات اور طالبان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے دفاعی مبصرین کا کہنا ہے کہ عام شہریوں کی ہلاکت سے افغانستان کی جنگ طول پکڑتی جا رہی ہے۔ شہریوں کی حفاظت میں طالبان کا رویہ بھی غیر سنجیدہ ہے۔ افغان حکومت اور غیر ملکی افواج کو شہریوں کی حفاظت کے لیے مزید ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
مبصرین کے مطابق جنگ میں شامل تمام فریق عام شہریوں کی ہلاکت کے ذمہ دار ہیں۔
گزشتہ ماہ کے آخر میں اقوامِ متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ رواں سال کے ابتدائی تین ماہ کے دوران افغانستان میں جاری لڑائی میں 500 عام شہری ہلاک ہوئے۔
عالمی ادارے کے اعانتی مشن برائے افغانستان کی رپورٹ کے مطابق رواں سال یکم جنوری سے 31 مارچ کے دوران ہونے والی لڑائی اور جھڑپوں میں 760 عام شہری زخمی بھی ہوئے۔
عالمی ادارے کے مطابق گزشتہ تین ماہ کے دوران 55 فی صد اموات طالبان، داعش اور حکومت مخالف گروہوں کی کارروائیوں کے نتیجے میں ہوئیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ طالبان اور حکومت مخالف دیگر گروہوں کے بجائے افغان حکومت اور غیر ملکی افواج کی کارروائیوں میں زیادہ بچوں کی ہلاکت ہوئی۔
واضح رہے کہ تین دن قبل افغانستان کے شہر گردیز میں ایک فوجی عدالت کے باہر ٹرک کے ذریعے دھماکے میں پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ طالبان نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسے کو صدر اشرف غنی کی جانب سے فوج کو طالبان پر حملوں کا حکم دینے کا ردعمل قرار دیا تھا۔
اس حملے سے دو دن پہلے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک اسپتال اور ننگر ہار میں ایک پولیس افسر کی نماز جنازہ میں حملے ہوئے تھے جن میں 50 سے زائد افراد مارے گئے تھے۔ تاہم طالبان نے ان حملوں میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔
کابل اور ننگرہار میں حملوں کے بعد صدر اشرف غنی نے فوج کو حکم دیا تھا کہ وہ دفاع کے بجائے طالبان اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف حملے کریں تاکہ عوامی مقامات کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
دوسری جانب امریکہ نے بھی کابل میں اسپتال اور ننگرہار میں جنازے پر حملوں کا ذمہ دار شدت پسند گروپ ‘داعش خراسان’ کو ٹھہراتے ہوئے کہا تھا کہ یہ حملے طالبان نے نہیں، داعش نے کیے تھے۔
امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے افغان عوام پر زور دیا ہے کہ وہ شدت پسند گروہ کی چال میں نہ آئیں اور امن کے حصول کی لیے متحد ہو جائیں۔
خلیل زاد کا کہنا تھا کہ داعش افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے خلاف ہے۔ وہ عراق اور شام کی طرح افغانستان میں بھی فرقہ وارانہ جنگ کو ہوا دینا چاہتی ہے۔