سہیل انجم
نیوکلیئر سپلائر گروپ، این ایس جی، کی رکنیت کے لیے بھارت کی کوششوں کے سلسلے میں چین کے ذریعے امریکہ کی سخت مخالفت کے ایک روز بعد بھارت میں امریکہ کے سفیر رچرڈ ورما نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت اس بارے میں چین کی رکاوٹوں کو عبور کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
انہوں نے ایک تقریب میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر براک اوباما، وزیر خارجہ جان کیری اور دیگر بہت سے لوگوں نے این ایس جی میں بھارت کی رکنیت کے سلسلے میں بہت کوششیں کی ہیں اور امریکہ اس بارے میں اپنی کوشش جاری رکھے گا۔
چین نے ایک روز قبل کہا تھا کہ این پی ٹی پر دستخط نہ کرنے والے ملکوں کی این ایس جی کلب میں شمولیت الوداعی تحفہ نہیں ہو سکتی کہ دونوں ملک ایک دوسرے کو پیش کریں۔ اس کا یہ رد عمل اوباما انتظامیہ کے اس بیان کے بعد آیا کہ این ایس جی کلب میں بھارت کی شمولیت کی کوشش کے حوالے سے چین ایک” غیر “ملک ہے۔
رچرڈ ورما نے کہا کہ یہ ساری چیزیں پیچیدہ ہیں۔ وہ کثیر ملکی گروپ ہے۔ ان کو اس میں وقت لگے گا۔ ہم چین سمیت دیگر ملکوں کے ساتھ کام کریں گے۔ ممکن ہے کہ چین کے کچھ تحفظات ہوں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ بالآخر ہم اس میں کامیاب ہو جائیں گے۔
رچرڈ ورما نے جو کہ 20 جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ کے صدر کی ذمہ داری سنبھالنے سے قبل اپنے عہدے سے سبکدوش ہو رہے ہیں، کہا کہ امریکہ این ایس جی اور دیگر بین الاقوامی اداروں بشمول سلامتی کونسل میں بھارت کی رکنیت کی سختی سے حمایت کرتا رہا ہے۔ یہ تمام باتیں اوباما انتظامیہ کے لیے بہت اہم رہی ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ٹرمپ حکومت بھی ترجیحی بنیاد پر ان کو جاری رکھے گی۔
ایک سینیر تجزیہ کار اور بین الاقوامی امور کے ماہر قمر آغا نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے امریکی سفیر کے بیان کی مکمل حمایت کی اور کہا کہ انہیں پوری امید ہے کہ چین بھارت کی رکنیت کو بہت دنوں تک نہیں روک سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کو نہ صرف امریکہ بلکہ تمام مغربی ملکوں کی بھی حمایت حاصل ہے اور ٹرمپ حکومت کافی سختی سے چین کے ساتھ معاملہ کرے گی اور اس قسم کے جو دیگر مسائل ہیں جیسے کہ این ایس جی کے علاوہ مولانا مسعود اظہر کو دهشت گرد قرار دینا، میں سمجھتا ہوں کہ یہ تمام چیزیں آسانی سے منظور ہو جائیں گی۔ عوامی حمایت چین کے پاس نہیں ہے اور تمام ملک چاہتے ہیں کہ بھارت اس ادارے کا رکن بنے اور وہاں جا کر تعمیری کام کرے۔
48رکنی این ایس جی کے اکثریتی ارکان کی حمایت کے باوجود چین بھارت کی رکنیت کی مخالفت کر رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بھارت نے این پی ٹی پر دستخط نہیں کیے ہیں اس لیے وہ اس کلب کا رکن بننے کا مجاز نہیں ہے۔ بھارت کے بعد پاکستان نے بھی این ایس جی کی رکنیت کے لیے درخواست دی ہے۔