نامور تجزیہ کار، نعیم سالک نے کہا ہے کہ پاکستان نےنیوکلیئر سکیورٹی پر ’سینٹر آف اکسیلنس‘ قائم کیا ہے، جس پیش کش کا پاکستان نے سنہ 2012میں سیئول میں منعقدہ جوہری سلامتی کے سربراہ اجلاس میں اعلان کیا تھا۔ نہ صرف یہ، بلکہ بین الاقوامی توانائی کے ادارے (آئی اے اِی اے) کے سال 2014 کا علاقائی کورس پاکستانی اکیڈمی کی سرپرستی میں منعقد ہو رہا ہے۔
ہیگ میں ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے، اُنھوں نے ’آئی اے اِی اے‘ کے ڈائریکٹر جنرل کے حالیہ دورہ پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ جوہری توانائی کے اعلیٰ ترین بین الاقوامی اہل کار نے جوہری تحفظ سے متعلق پاکستان کے ’اعلیٰ انتظام‘ کو سراہا ہے۔
اُنھوں نے یہ بات، جوہری سلامتی پر عالمی سربراہ اجلاس سے قبل، ’نالیج سمٹ‘ میں شرکت کے دوران، ایک خصوصی انٹرویو میں کہی۔
جوہری مواد پر ’این ٹی آئی‘ کی طرف سے جاری کردہ حالیہ ’سکیورٹی انڈیکس‘ کا ذکر کرتے ہوئے، نعیم سالک نے کہا کہ ’پہلی بار، پاکستان کی طرف سے نیوکلیئر سکیورٹی کی بہتری کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی ’کھل کر‘ تعریف ہوئی ہے۔‘
اس سوال پر کہ اس حوالے سے ماہرین کے کیا تاثرات ہیں، نعیم سالک نے بتایا کہ’جو لوگ پاکستان پر شک کا اظہار کیا کرتے تھے، اب اُن کا رویہ بھی مثبت دکھائی دیتا ہے‘۔
اُنھوں نے بتایا کہ ’این ٹی آئی انڈیکس رپورٹ‘ آنے کے بعد، پاکستان اور بھارت اب یکساں مقام پر ہیں؛ ماسوائے اس کے کہ شدت پسندوں کی کارروائیوں کے باعث بیرون ملک پاکستان کی کامیابیاں عام طور پر نظروں سے اوجھل رہتی ہیں۔
’سینٹر فور انٹرنیشنل اسٹریٹجک اسٹڈیز‘ کے سربراہ، ایمبسیڈر علی سرور نقوی کا کہنا تھا کہ 2014 کی بین الاقوامی نیوکلیئر سکیورٹی سمٹ سے قبل، ہیگ ہی میں’نیوکلیئر نالیج سمٹ‘ اور ’نیوکلیئر انڈسٹری کا سربراہ اجلاس‘ منعقد ہو رہے ہیں۔
اُنھوں نے بتایا کہ آگہی بڑھانے کی غرض سے اُن کا ادارہ سیئول اجلاس کے بعد، اسلام آباد میں اعلیٰ سطح پر ایک راؤنڈ ٹیبل اور ایک سمینار منعقد کرا چکا ہے۔
علی سرور نقوی نے بتایا کہ پاکستان کو اس بات میں گہری دلچسپی ہے کہ جوہری پلانٹس اور نیوکلیئر تنصیبات کی سکیورٹی کو یقینی بنایا جائے۔
اُن کے الفاظ میں، ’پاکستان چاہتا ہے کہ سارے شریک ممالک مل کر سکیورٹی فریم ورک کو زیادہ مضبوط بنائیں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں اور ہم نے یہ بھی پیش کش کی ہے کہ ہم بین الاقوامی برادری کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ کیونکہ پاکستان، بھارت اور اسرائیل وہ مالک ہیں جنھوں نے این پی ٹی پر دستخط نہیں کیے؛ ہمارے خلاف تعزیرات لگی ہوئی ہیں، جس کی بنا پر ہمارے ساتھ الگ برتاؤ کیا جارہا ہے۔‘
’لیکن، اب یہ نہیں دیکھا جارہا کہ کون سا ملک جوہری عدم پھیلاؤ میں معاون ہے، بلکہ یہ دیکھا جارہا ہے کہ جوہری مواد اور ٹیکنالوجی کو کنٹرول کیے جانے کے معاملے پر کیا کچھ کیا جا رہا ہے‘۔
اُنھوں نے صدر براک اوباما کے ماضی کی ایک تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دنیا میں اس وقت 453 ٹن غیر محفوظ نیوکلیئر مٹیرئل موجود ہے، جس کا حساب نہیں ہوا، اور جو بات بہت خطرناک ہے، کیونکہ اس کے بہت سے نقصانات ہوسکتے ہیں، اور لوگوں کی جانیں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔
علی سرور نقوی کے بقول، ’پاکستان اُن ممالک میں سے ایک ہے جن کا نیوکلیئر پروگرام بہت اعلیٰ درجے کا ہے، جس کی دو روز قبل ہیگ میں ایک ملاقات کے دوران بین الاقوامی توانائی کے سربراہ پاکستان کی تعریف کر چکے ہیں‘۔
بقول اُن کے، جوہری سلامتی کےبارے میں جتنا کچھ پاکستان کر رہا ہے، اُتنا کم ہی ملک کر رہے ہیں۔
’ہاروڈ یونیورسٹی کے بیلفر سینٹر فور سائنس اینڈ انٹرنیشنل افیئرز‘ میں پروفیسر، میتھیو بَن کا کہنا تھا کہ صدر اوباما کی پراگ کی تقریر کے بعد، 13 ممالک نے اپنی سرزمین پر تمام نیوکلیئر مواد تلف کردیا ہے اور بہت سے ممالک ہیں جنھوں نے اپنی سکیورٹی کی ضروریات تبدیل کردی ہیں، اور یوں، بقول اُن کے، حکومتی ضابطوں، قوانین اور عالمی مکالمے کا انداز بدل چکا ہے۔
اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ پہلے ہر حکومت کے پاس چند ایک ماہر موجود تھے، جن کی تعداد خاصی بڑھ چکی ہے۔
تاہم، میتھیو بَن کا کہنا تھا کہ اب بھی بہت سے خطرات لاحق ہیں؛ جوہری سلامتی سے متعلق فریم ورک ابھی بہت کمزور ہے جسے تقویت دینے کی ضرورت ہے۔ بقول اُن کے، ہمارے پاس اب بھی کوئی ایسا قانون موجود نہیں ہے جو یہ بات واضح کرے کہ آپ کے پاس نیوکلیئر ہتھیار ہیں اور پھر اتنا جوہری مواد ہے، یہی ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے اِسے محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔‘
اُنھوں نے مزید کہا کہ ہمارے پاس اتفاق رائے کی بنیاد پر کوئی ایسا فریم ورک موجود نہیں ہے جس کی بنیاد پر اس بات کی تصدیق ہو کہ کون کس حد تک مؤثر انداز میں جوہری سکیورٹی کو تقویت دے رہا ہے۔ ’پھر یہ کہ ہمارے پاس، کوئی ایسا فورم موجود نہیں جس سے ہم یہ دیکھ سکیں کہ جب موجودہ دو سالہ اجلاسوں کا سلسلہ ختم ہو تو حاصل ہونے والے ڈائلاگ کے مقاصد کے اس تحرک کو کس طرح سے جاری رکھا جائے۔‘
پروفیسر میتھیو بَن نے کہا کہ ’آئی اے اِی اے‘ اہم رول ادا کرے گا، لیکن اس ادارے کا دھیان صرف سویلین نیوکلیئر مٹیریل پر مرکوز ہے، جب کہ 85 فی صد مواد جس سے نیوکلیئر بم بنتا ہے، وہ فوج کے پاس ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ 2016ٗ کے بعد اس معاملے پر کیا لائحہ عمل ہوگا، اُنھوں نے کہا کہ یہ بات غیر واضح ہے ٓایا آئندہ ہم ڈائلاگ کو کس طرح ترتیب دیں گے؛ اور اداروں کی طرف سے حاصل کردہ پیش رفت کو کس طرح جاری رکھ سکیں گے۔
’ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان‘، کی چیرپرسن، ماریا سلطان کا کہنا تھا کہ فسائیل مٹیریل کو محفوظ بنانے کے حوالے سے پاکستان نےسنہ 2010 کے بعد سے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ساتھ ہی، پاکستان نے بین الاقوامی طور پر اپنی مہارت کو ’شیئر‘ کرنے میں اور ’بیسٹ پریکٹسز‘ کے ضمن میں، نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان نے تین چیزیں دی ہیں، جن میں ٹریننگ اکیڈمی، نیوکلیئر فورینسک سینٹر اور پاکستان نیوکلیئر اتھارٹی میں سیفٹی اینڈ سکیورٹی اسکول قائم کرنا شامل ہیں۔
ماریا سلطان کے بقول، سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان فسائیل مٹیریلز کی سکیورٹی اور حفاظت کے معاملات کو بہتر طریقے سے سرانجام دے رہا ہے‘۔
ساتھ ہی، اُن کا کہنا تھا کہ شدت پسندی کے پیش نظر پاکستان کو سیفٹی اور سکیورٹی کے کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔
اُنھوں نے کہا کہ جب تک خطرات کو سمجھا نہیں جائے گا، تب تک بین الاقوامی سطح پر تعاون اور رابطے کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔
ہیگ میں ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے، اُنھوں نے ’آئی اے اِی اے‘ کے ڈائریکٹر جنرل کے حالیہ دورہ پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ جوہری توانائی کے اعلیٰ ترین بین الاقوامی اہل کار نے جوہری تحفظ سے متعلق پاکستان کے ’اعلیٰ انتظام‘ کو سراہا ہے۔
اُنھوں نے یہ بات، جوہری سلامتی پر عالمی سربراہ اجلاس سے قبل، ’نالیج سمٹ‘ میں شرکت کے دوران، ایک خصوصی انٹرویو میں کہی۔
جوہری مواد پر ’این ٹی آئی‘ کی طرف سے جاری کردہ حالیہ ’سکیورٹی انڈیکس‘ کا ذکر کرتے ہوئے، نعیم سالک نے کہا کہ ’پہلی بار، پاکستان کی طرف سے نیوکلیئر سکیورٹی کی بہتری کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی ’کھل کر‘ تعریف ہوئی ہے۔‘
اس سوال پر کہ اس حوالے سے ماہرین کے کیا تاثرات ہیں، نعیم سالک نے بتایا کہ’جو لوگ پاکستان پر شک کا اظہار کیا کرتے تھے، اب اُن کا رویہ بھی مثبت دکھائی دیتا ہے‘۔
اُنھوں نے بتایا کہ ’این ٹی آئی انڈیکس رپورٹ‘ آنے کے بعد، پاکستان اور بھارت اب یکساں مقام پر ہیں؛ ماسوائے اس کے کہ شدت پسندوں کی کارروائیوں کے باعث بیرون ملک پاکستان کی کامیابیاں عام طور پر نظروں سے اوجھل رہتی ہیں۔
’سینٹر فور انٹرنیشنل اسٹریٹجک اسٹڈیز‘ کے سربراہ، ایمبسیڈر علی سرور نقوی کا کہنا تھا کہ 2014 کی بین الاقوامی نیوکلیئر سکیورٹی سمٹ سے قبل، ہیگ ہی میں’نیوکلیئر نالیج سمٹ‘ اور ’نیوکلیئر انڈسٹری کا سربراہ اجلاس‘ منعقد ہو رہے ہیں۔
اُنھوں نے بتایا کہ آگہی بڑھانے کی غرض سے اُن کا ادارہ سیئول اجلاس کے بعد، اسلام آباد میں اعلیٰ سطح پر ایک راؤنڈ ٹیبل اور ایک سمینار منعقد کرا چکا ہے۔
علی سرور نقوی نے بتایا کہ پاکستان کو اس بات میں گہری دلچسپی ہے کہ جوہری پلانٹس اور نیوکلیئر تنصیبات کی سکیورٹی کو یقینی بنایا جائے۔
اُن کے الفاظ میں، ’پاکستان چاہتا ہے کہ سارے شریک ممالک مل کر سکیورٹی فریم ورک کو زیادہ مضبوط بنائیں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں اور ہم نے یہ بھی پیش کش کی ہے کہ ہم بین الاقوامی برادری کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ کیونکہ پاکستان، بھارت اور اسرائیل وہ مالک ہیں جنھوں نے این پی ٹی پر دستخط نہیں کیے؛ ہمارے خلاف تعزیرات لگی ہوئی ہیں، جس کی بنا پر ہمارے ساتھ الگ برتاؤ کیا جارہا ہے۔‘
’لیکن، اب یہ نہیں دیکھا جارہا کہ کون سا ملک جوہری عدم پھیلاؤ میں معاون ہے، بلکہ یہ دیکھا جارہا ہے کہ جوہری مواد اور ٹیکنالوجی کو کنٹرول کیے جانے کے معاملے پر کیا کچھ کیا جا رہا ہے‘۔
اُنھوں نے صدر براک اوباما کے ماضی کی ایک تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دنیا میں اس وقت 453 ٹن غیر محفوظ نیوکلیئر مٹیرئل موجود ہے، جس کا حساب نہیں ہوا، اور جو بات بہت خطرناک ہے، کیونکہ اس کے بہت سے نقصانات ہوسکتے ہیں، اور لوگوں کی جانیں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔
علی سرور نقوی کے بقول، ’پاکستان اُن ممالک میں سے ایک ہے جن کا نیوکلیئر پروگرام بہت اعلیٰ درجے کا ہے، جس کی دو روز قبل ہیگ میں ایک ملاقات کے دوران بین الاقوامی توانائی کے سربراہ پاکستان کی تعریف کر چکے ہیں‘۔
بقول اُن کے، جوہری سلامتی کےبارے میں جتنا کچھ پاکستان کر رہا ہے، اُتنا کم ہی ملک کر رہے ہیں۔
’ہاروڈ یونیورسٹی کے بیلفر سینٹر فور سائنس اینڈ انٹرنیشنل افیئرز‘ میں پروفیسر، میتھیو بَن کا کہنا تھا کہ صدر اوباما کی پراگ کی تقریر کے بعد، 13 ممالک نے اپنی سرزمین پر تمام نیوکلیئر مواد تلف کردیا ہے اور بہت سے ممالک ہیں جنھوں نے اپنی سکیورٹی کی ضروریات تبدیل کردی ہیں، اور یوں، بقول اُن کے، حکومتی ضابطوں، قوانین اور عالمی مکالمے کا انداز بدل چکا ہے۔
اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ پہلے ہر حکومت کے پاس چند ایک ماہر موجود تھے، جن کی تعداد خاصی بڑھ چکی ہے۔
تاہم، میتھیو بَن کا کہنا تھا کہ اب بھی بہت سے خطرات لاحق ہیں؛ جوہری سلامتی سے متعلق فریم ورک ابھی بہت کمزور ہے جسے تقویت دینے کی ضرورت ہے۔ بقول اُن کے، ہمارے پاس اب بھی کوئی ایسا قانون موجود نہیں ہے جو یہ بات واضح کرے کہ آپ کے پاس نیوکلیئر ہتھیار ہیں اور پھر اتنا جوہری مواد ہے، یہی ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے اِسے محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔‘
اُنھوں نے مزید کہا کہ ہمارے پاس اتفاق رائے کی بنیاد پر کوئی ایسا فریم ورک موجود نہیں ہے جس کی بنیاد پر اس بات کی تصدیق ہو کہ کون کس حد تک مؤثر انداز میں جوہری سکیورٹی کو تقویت دے رہا ہے۔ ’پھر یہ کہ ہمارے پاس، کوئی ایسا فورم موجود نہیں جس سے ہم یہ دیکھ سکیں کہ جب موجودہ دو سالہ اجلاسوں کا سلسلہ ختم ہو تو حاصل ہونے والے ڈائلاگ کے مقاصد کے اس تحرک کو کس طرح سے جاری رکھا جائے۔‘
پروفیسر میتھیو بَن نے کہا کہ ’آئی اے اِی اے‘ اہم رول ادا کرے گا، لیکن اس ادارے کا دھیان صرف سویلین نیوکلیئر مٹیریل پر مرکوز ہے، جب کہ 85 فی صد مواد جس سے نیوکلیئر بم بنتا ہے، وہ فوج کے پاس ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ 2016ٗ کے بعد اس معاملے پر کیا لائحہ عمل ہوگا، اُنھوں نے کہا کہ یہ بات غیر واضح ہے ٓایا آئندہ ہم ڈائلاگ کو کس طرح ترتیب دیں گے؛ اور اداروں کی طرف سے حاصل کردہ پیش رفت کو کس طرح جاری رکھ سکیں گے۔
’ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان‘، کی چیرپرسن، ماریا سلطان کا کہنا تھا کہ فسائیل مٹیریل کو محفوظ بنانے کے حوالے سے پاکستان نےسنہ 2010 کے بعد سے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ساتھ ہی، پاکستان نے بین الاقوامی طور پر اپنی مہارت کو ’شیئر‘ کرنے میں اور ’بیسٹ پریکٹسز‘ کے ضمن میں، نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان نے تین چیزیں دی ہیں، جن میں ٹریننگ اکیڈمی، نیوکلیئر فورینسک سینٹر اور پاکستان نیوکلیئر اتھارٹی میں سیفٹی اینڈ سکیورٹی اسکول قائم کرنا شامل ہیں۔
ماریا سلطان کے بقول، سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان فسائیل مٹیریلز کی سکیورٹی اور حفاظت کے معاملات کو بہتر طریقے سے سرانجام دے رہا ہے‘۔
ساتھ ہی، اُن کا کہنا تھا کہ شدت پسندی کے پیش نظر پاکستان کو سیفٹی اور سکیورٹی کے کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔
اُنھوں نے کہا کہ جب تک خطرات کو سمجھا نہیں جائے گا، تب تک بین الاقوامی سطح پر تعاون اور رابطے کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔