کانفرنس کے میزبان صدر براک اوباما کا کہنا ہے کہ اُن کی کوشش ہے کہ آئندہ چار سالوں میں دنیا میں جہاں کہیں بھی غیر محفوظ جوہری مواد ہے اُس کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ امریکی صدر کا ماننا ہے کہ جوہری دہشت گردی امریکہ اور عالمی سلامتی کے لیے سب سے بڑا اور واحد خطرہ ہے اور وہ اقوامِ عالم کو متحرک کر کے ایسے اقدامات لینا چاہتے ہیں جو جوہری مواد تک پہنچنے کی دہشت گردوں کی کوششوں کی حوصلہ شکنی کریں تاکہ وہ اسے بم بنانے کے لیے استعمال نہ کرسکیں۔
صدر اوباما کے انسداد دہشت گردی کے مشیر جان برینن نے پیر کو ایک بیان میں کہا تھا کہ القاعدہ نیٹ ورک نے جوہری ٹیکنالوجی اور مواد کے حصول کو اولین ترجیح بنا رکھا ہے تاکہ نیوکلئیر بم بنا کر وہ امریکہ اور دنیا کے امن کی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکے۔
امریکی حکام سینکڑوں ٹن اُس افزودہ یورنیم اور پلوٹنیم کے بار ے میں پریشانی کا شکار ہیں جو دنیا بھر میں نیوکلئیر ری ایکٹرز، تحقیقاتی اداروں اور فوجی تنصیبات میں موجود ہیں اور جو چوری کیے جاسکتے ہیں۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ نے روس کے ساتھ مل کر سابق سویت ریاستوں اور خود روس میں جوہری مواد کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کام کیا ہے لیکن اب وہ چاہتا ہے کہ ان کوششوں کو وسعت دے کر دوسرے ملکو ں کو اس بات پر راضی کرے کہ وہ جوہری مواد کی سمگلنگ کو روکنے کے لیے مزید ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔
واشنگٹن میں ہونے والے اجلاس سے قبل صدر اوباما نے مختلف ملکوں کے سربراہان سے ملاقاتیں کیں جن میں یوکرائن کے صدر وکٹر یونوکووچ بھی شامل تھے جنھوں نے امریکی صدر کو یقین دہانی کرائی کہ وہ 2012 تک اعلیٰ سطحی افزودہ یورینیم کے ذخائر تلف کردے گا۔ مزید برآں انھوں نے کہا کہ یوکرائن جوہری سول توانائی کے پروگرام کو کم افزودہ یورینیم پر چلانے کے منصوبے پر عمل درآمد جلد شروع کردے گا۔
کینیڈا نے بھی پیر کو اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے استعمال شدہ جوہری ایندھن کی ایک بہت بڑی مقدار امریکہ کو واپس کردے گا۔
گذشتہ ہفتے صدر اوباما نے روس کے صدر کے ساتھ ایک نئے معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت دونوں ملک اپنی جوہری ہتھیاروں میں 30 فیصد کمی کریں گے جب کہ امریکی صدر نے یک طر فہ طور پر یہ اعلان بھی کیا تھا کہ ان کا ملک اُن حالات کو بھی محدود کر رہا ہے جن میں جوہری ہتھیاروں کو استعمال کیا جائے گا۔
ایران اور شمالی کوریا کو اجلاس میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے بھی کانفرنس میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ ان کے بقول مسلم ممالک خصوصاََ مصر اور ترکی اس موقع پر اسرائیل کے جوہری پروگرام کو تنقید کا نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اسرائیل کے وزیر برائے ایٹمی توانائی اجلاس میں اپنے ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ پاکستان اور بھار ت کے وزرائے اعظم بھی اجلاس میں شریک ہیں ۔ دونوں ملکو ں نے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاوہ کے عالمی معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں لیکن بھارت اور پاکستان دونوں ہی جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں۔