رسائی کے لنکس

صدر اوباما افریقہ میں نظام کی بہتری کے خواہاں


صدر اوباما افریقہ میں نظام کی بہتری کے خواہاں
صدر اوباما افریقہ میں نظام کی بہتری کے خواہاں

اپنے چار سالہ عہد صدارت کے دو سال مکمل ہونے پر، صدر اوباما کی توجہ امریکہ میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے، افغانستان اور پاکستان میں اسلامی انتہا پسندوں کو شکست دینے ، اور بجٹ کے بڑھتے ہوئے خسارے پر قابو پانے پر ہے ۔ لیکن افریقہ کے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ وہ افریقہ کے بر اعظم میں نظامِ حکومت اور جمہوریت کو بہتر بنانے کی بھی ہر ممکن کو شش کر رہے ہیں۔

امریکہ میں قائم کونسل آن فارن ریلیشنز کے جان کیمپبل کہتے ہیں کہ مسٹر اوباما افریقہ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ’’انھوں نے اپنے خیالات بڑی وضاحت سے بیان کیئے ہیں اور ان کی انتظامیہ افریقہ میں نظامِ حکومت، اقتصادی ترقی، اور باہم دلچسپی کے بہت سے امور پر افریقہ کے ساتھ شراکت داری میں سرگرم رہی ہے۔ مجھے امید ہے کہ افریقہ کے ساتھ رابطے بڑھانے کا عمل ان کی صدارت کی پہلی مدت کے دوسرے حصے میں بھی جاری رہے گا۔‘‘

تجزیہ کار توجہ دلاتے ہیں کہ 2009 میں صدر نے جمہوریت کے بارے میں گھانا میں تقریر کی تھی ، گذشتہ سال ان کی انتظامیہ نے کوشش کی کہ Guinea میں اقتدار فوجی لیڈر سے منتخب صدر کو منتقل ہو جائے، اور حال ہی میں جنوبی سوڈان میں ریفرنڈم کو کامیاب بنانے کے لیئے امریکہ نے مدد دی۔ صدر نے اگست 2010 میں نوجوان افریقی لیڈروں کو واشنگٹن میں مدعو کیا تا کہ وہ بہت سے افریقی ملکوں کی آزادی کی پچاسویں سالگرہ منائیں ۔

لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ امریکی اثر و رسوخ کی اپنی حدود ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسٹر اوباما کا یہ عہد کہ باغی گروپ لارڈز رزسٹنس آرمی کو جو وسطی اور مشرقی افریقہ کے ملکوں میں سرگرم ہے، روکا جائے، بے اثر ثابت ہوا۔

یونیورسٹی آف واشنگٹن کے ڈینیل چیروٹ کہتے ہیں کہ اس کی ایک دلچسپ مثال آئیوری کوسٹ ہے ۔ مسٹر اوباما اور ان کی انتظامیہ نے کُھل کر موجودہ صدر لاؤرنٹ گباگو کی مخالفت کی ہے جو ایسے انتخاب کے بعد جس میں انھوں نے کھلم کھلا دھاندلی کی تھی، اقتدار چھوڑنے سے انکار کرتے ہیں۔ لیکن چیروٹ کہتے ہیں کہ امریکہ جو کچھ کر سکتا ہے اس کی ایک حد ہے ۔ ’’مجھے امید نہیں کہ امریکہ کوئی بڑی رقم، یا بڑی تعداد میں اپنے فوجی، یا کوئی بحری بیڑہ اس مسئلے کے حل کے لیئے لگانے کو تیار ہو گا۔‘‘

ہارورڈ یونیورسٹی کے Olayiwola Abegunrin کہتے ہیں کہ وکی لیکس ویب سائٹ کی طرف سے ہزاروں ڈپلومیٹک کیبلز کے افشا کیے جانے سے، نہ صرف امریکہ کو شرمندگی اٹھانی پڑی ہے بلکہ بر اعظم افریقہ پر مسٹر اوباما کے اثر و رسوخ میں بھی رکاوٹ پڑی ہے ۔

انھوں نے کہا’’یہ ایک ایسی نئی چیز ہوئی ہے جس سے امریکہ پوری طرح بے نقاب ہو گیا ہے۔ یہ کام ایک نئی ٹیکنالوجی سے کیا گیا ہے اور افریقہ کے پورے بر اعظم میں امریکہ جو کچھ کرتا رہا ہے، اس کا بھانڈا پھوٹ گیا ہے۔ اس سے افریقہ کے لیئے امریکہ کی پالیسی بھی متاثر ہو گی۔ امریکہ دوسرے ملکوں میں اپنا احترام اور دوستی کھوتا جا رہا ہے ۔ ‘‘

بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ نظام حکومت کے بارے میں جو سخت باتیں کہی گئی ہیں اور جو راز افشا ہوئے ہیں ان دونوں کا اثر یہ ہوا ہے کہ افریقہ کے بہت سے ملکوں کی حکومتیں امریکہ کے بجائے، چین اور دوسری ابھرتی ہوئی طاقتوں ، جیسے بھارت، برازیل اور ایران کے ساتھ تعلقات بڑھانا چاہتی ہیں، اگرچہ صدر کے والد کینیا کے رہنے والے تھے ۔

وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ صدر اوباما اپنی صدارت کی پہلی مدت میں، ایک بار پھر، شاید اس سال افریقہ کا دورہ کریں گے ۔ ان کی انتظامیہ درجنوں انتخابات پر کڑی نظر رکھے ہوئے جو اس سال بر اعظم افریقہ کے ملکوں میں ہونے والے ہیں۔ ان میں مغربی افریقہ کا تیل کی دولت سے مال مال ملک نائجیریا بھی شامل ہے ۔

XS
SM
MD
LG