امریکی صدر براک اوباما اور برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ ایران پر نئی تعزیرات لاگو کرنے کی صورت میں، ایران کے جوہری پروگرام کو ترک کرنے سے متعلق معاہدہ طے کیے جانے پر جاری بات چیت خطرے میں پڑ جائے گی۔
مذاکرات کے بعد، دونوں سربراہان نے وائٹ ہاؤس میں ایک مشترکہ اخباری کانفرنس سے خطاب کیا۔ مسٹر اوباما نے امریکی کانگریس پر یہ بات واضح کی کہ نئی تعزیرات کے لیے کوئی قانون سازی کی گئی تو وہ اُسے ویٹو کردیں گے۔
مسٹر کیمرون نے کہا ہے کہ اس معاملے پر اُنھوں نے بھی ذاتی طور پر چند امریکی سینیٹروں سے رابطہ کیا ہے۔
صدر اوباما نے کہا کہ وہ قانون سازوں سے کہیں گے کہ وہ چند ماہ رُک جائیں، تاکہ یہ دیکھا جاسکے آیا ’کسی ممکنہ لڑائی کی طرف جائے بغیر‘ ایران کا نیوکلیئر معاملہ حل ہو سکتا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ مذاکرات کو خطرے میں ڈالنے کاکوئی ’وزنی سبب نہیں‘، تاوقتیکہ جاری کوششیں کسی انجام کو نہیں پہنچ پاتیں۔
امریکی اور برطانوی سربراہان نے کہا کہ مزید تعزیرات کی دھمکی کے باعث ایران پر بین الاقوامی اتحاد کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
تاہم، مسٹر اوباما نے اپنا مؤقف دہراتے ہوئے کہا کہ، اگر سفارت کاری ناکام ہوتی ہے، تو پھر ایران سے نمٹنے کے ’تمام آپشنز‘ کھلے ہیں۔
اور اگر کوئی سمجھوتا طے بھی ہوجاتا ہے، تو اُنھوں نے کہا کہ پھر بھی ایران کے ساتھ مغرب کے ’دیگر کئی‘ مسائل باقی ہیں، جیسا کہ دہشت گردی کی ریاستی سرپرستی، اسرائیل کے خلاف ایران کا دھمکی آمیز لہجہ اور حزب اللہ کی مالی اعانت، اور ساتھ ہی ساتھ، شام کے معاملے پر اختلافات کا معاملہ۔