صدر براک اوباما نے امریکہ کی ایک سابق انٹلیجنس اہلکار چیلسی میننگ کی قید کی سزا کو کم کر دیا ہے۔
چیلسی کو لاکھوں کی تعداد میں حساس دستاویزات وکی لیکس کو فراہم کرنے پر 35 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی لیکن اس فیصلے کے بعد اب اُنھیں مئی میں رہا کر دیا جائے گا۔
وہ ان افراد میں شامل ہیں جن کی سزا صدر اوباما نے منگل کو یا تو معاف کر دی یا ان میں کمی کی ہے۔
صدر اوباما نے 209 قیدیوں کی سزا میں کمی کی ہے جب کہ 64 کے لیے معافی کا اعلان ایسے وقت کیا جب ان کی مدت صدارت ختم ہونے کے قریب ہے۔ دیگر افراد میں وہ لوگ شامل ہیں جو منشیات سے متلعق جرائم میں ملوث تھے۔
وائٹ ہاؤس کے کونسل نیل ایگلیسٹن نے منگل کو کہا کہ "ان 273 افراد کو یہ احساس ہو گا کہ ہماری قوم معاف کرنے والی ہے جہاں بحالی کے عزم کی صورت میں ایک دوسرا موقع ملتا ہے اور جہاں ماضی میں کی گئی غلطیاں کسی فرد کو آگے بڑھنے کے موقع سے محروم نہں کریں گی۔"
اس نے امریکی فوج سے متعلق سات لاکھ سے زائد حساس دستاویزات وکی لیکس کو فراہم کیں جو افغانستان، عراق اور محکمہ خارجہ کے بارے میں تھیں۔
استغاثہ کا موقف تھا کہ میننگ کے طرز عمل کی وجہ سے امریکی خواتین و مرد فوجیوں کی زندگیوں کے خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔
جب کہ ان کے وکلا نے ان کے دفاع میں کہا کہ انہوں نے فوج کے کردار کے بارے میں سچائی سامنے لائی اور ان میں سے زیادہ تر معلومات کی ان لوگوں کے لیے کوئی اہمیت نہیں تھی جو امریکہ کو نقصان پہنچانے کی متمنی ہو سکتے ہیں۔
میننگ نے ان دستاویزات کو افشا کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کرنے کی ایک وجہ ان کی اپنی جنسی شناخت سے متعلق الجھن تھی۔
سزا ملنے کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو ایک عورت قرار دیتے ہوئے، اپنا نام بریڈلے سے چیلسی رکھ لیا اور کہا کہ ان کا جنس کی تبدیلی کا ارادہ ہے۔
میننگ کے وکلا کا کہنا ہے کہ چیلسی نے دو بار خود کشی کرنے کی کوشش کی اور ان کا کہنا ہے کہ ان کی سزا کو کم کرنے سے صیح معنوں میں چیلسی کی زندگی بچائی جا سکی گی۔
وائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ اوباما کی طرف سے یہ فیصلہ اس بنیاد پر کیا گیا ہے کہ میننگ کو دی گئی 35 سال کی سزا، اس نوعیت کے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے بہت زیادہ ہے۔
وکی لیکس نے میننگ کی سزا کم کرنے کو ایک "فتح" قرار دیا۔ ’وکی لیکس‘ کے بانی جولیاں اسانج کہا کہ میننگ کی لیے چلائی جانے والی مہم میں شریک ہر ایک شخص کے عزم اور حوصلے نے "ناممکن کو ممکن" بنا دیا۔
دوسری طرف ریپبلکن قانون ساز اس بات پر ںاراض ہیں کہ میننگ کو اب جلد رہا کر دیا جائے گا۔
امریکی ایوان نمائندگان کے سپیکر پال ریان نے بھی اپنی ٹویٹ میں اس فیصلے کو "افسوسناک" قرار دیتے ہوئے کہا کہ "میننگ نے ہمارے ملک کی بعض انتہائی حساس معلومات کو افشا کر کے امریکی شہریوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیں۔"
انہوں نے اوباما پر ایک "خطرناک مثال" قائم کرنے کا الزام عائد کیا۔
جن افراد کو صدر اوباما نے معافی دی ہے ان میں ریٹائرڈ جنرل اور سابق جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جمیز کارٹ رائٹ بھی شامل ہیں۔
انہوں نے اکتوبر میں وفاقی تفتیش کاروں کے سامنے ایران کی جوہری تنصیبات کے خلاف امریکہ کے مبینہ سائبر حملے سے متعلق حساس معلومات افشا کرنے کے معاملے پر جھوٹ بولا تھا۔
اس معاملے کی تفصیلات امریکہ ایک موقر اخبار نیویارک ٹائمز کے نامہ نگار ڈیوڈ سینگر کی ایک کتاب میں سامنے آئیں۔ جمیز رائٹ کو ابھی سزا سنائی جانی تھی اور وفاقی استغاثہ نے انہیں دو سال قید کی سزا دینے کے لیے کہا تھا۔