واشنگٹن —
4 ستمبر سے، ڈیموکریٹک پارٹی کا کنونشن شروع ہو رہا ہے جس میں صدر براک اوباما کو باقاعدہ طور پر صدارت کی دوسری چار سال کی مدت کے لیے نامزد کیا جائے گا۔
چار سال قبل ، براک اوباما، امریکہ کے 44 ویں صدر منتخب ہوئے تھے۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے انہیں ایسے کنونشن میں نامزد کیا تھا جو جوش و خروش سے بھر پور تھا اور جس میں ملک کی بگڑتی ہوئی اقتصادی حالت پر لوگوں کی بے اطمینانی اور مایوسی پر توجہ مرکوز کی گئی تھی ۔ اس صورتِ حال کی مناسبت سے مسٹر اوباما نے جس نعرے کو اپنا نصب العین قرار دیا وہ تھا ’’ایسی تبدیلی جس پر اعتبار کیا جا سکتا ہے ۔‘‘
مسٹر اوباما اب وائٹ ہاؤس میں تقریباً چار سال مکمل کر چکے ہیں۔ معیشت کی حالت بہتر ہوئی ہے لیکن اتنی نہیں جتنی کہ بہت سے لوگوں کو امید تھی۔ بعض سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ مسٹر اوباما کو پتہ چل گیا ہے کہ انتخابی مہم چلانے اور ملک کو چلانے میں بہت بڑا فرق ہے۔
جینیفر لالیس امریکن یونیورسٹی میں وویمن اینڈ پولیٹکس انسٹیٹیوٹ کی سربراہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں’’ انھوں نے بہت سے وعدے اس تصور کی بنیاد پر کیے تھے کہ واشنگٹن میں دونوں پارٹیوں کے درمیان کسی حد تک تعاون ہو گا اور جب جان بوئہنر ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر منتخب ہو گئے، تو اس کے فوراً بعد یہ واضح ہو گیا کہ ریپبلیکنز کا اولین مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ایسا نہ ہونے پائے ۔‘‘
اس کی ایک مثال وہ قانون ہے جسے ڈریم ایکٹ کہا جاتا ہے ۔ اس کے تحت قانون کی پابندی کرنے والے ایسے تارکینِ وطن کو شہریت مل جاتی جو بچپن میں غیر قانونی طور پر امریکہ پہنچے تھے ۔ صدر نے اس قانون کی تائید کی، لیکن یہ کانگریس میں نہیں پہنچ سکا۔
جون میں صدر اوباما نے اعلان کیا کہ امریکہ عارضی طور سے ایسے تارکینِ وطن کو ملک سے نکالنے کی کارروائی روک دے گا جو ڈریم ایکٹ کے تحت ملک میں رہنے کے اہل ہوتے۔
اس دوران، ان کی انتظامیہ نے جتنی بڑی تعداد میں غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک سے نکالا ہے ، اتنے لوگ کسی اور صدر کے دور میں نہیں نکالے گئے ۔
انتخابی مہم میں صدر اوباما نے ملک میں علاج معالجے کے نظام کی اصلاح کا جو وعدہ کیا تھا، انھوں نے اسے پورا کیا ۔ اگرچہ اس کے نتیجے میں جو قانون بنا ہے وہ بہت متنازع ہے، لیکن سپریم کورٹ نے اس کی اہم شقوں کو برقرار رکھا ہے ۔
انھوں نے اقتصادی بحالی کا 787 ارب ڈالر کا پیکیج پیش کیا اور کانگریس نے اسے منظور کر لیا۔ اس کے بعد انھوں نے کاریں تیار کرنے والی امریکی کمپنیوں، جنرل موٹرز اور کرائسلر کو مشکلات سے نکالنے کے منصوبے پر عمل در آمد کیا۔
صدر اوباما کے دورِ حکومت میں، گیارہ ستمبر 2011 کے دہشت گردی کے حملوں کے ملزم، اسامہ بن لادن کا پاکستان میں سراغ لگایا گیا، اور اچانک فوجی آپریشن میں اسے ہلاک کر دیا گیا۔صدر نے عراق سے امریکی فوجیں نکال لیں، افغانستان میں فوجوں کی تعداد میں اضافہ کیا، اور روس کے ساتھ تخفیفِ اسلحہ کے نئے سمجھوتے پر دستخط کیے۔
براک اوباما پہلے افریقی امریکی ہیں جو امریکہ کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ وہ پہلے صدر ہیں جنھوں نے ایک ہی جنس کے لوگوں کے درمیان شادی کو قانونی حیثیت دینے کی حمایت کی ہے ۔
رائے عامہ کے جائزوں میں، ذاتی مقبولیت کے شعبے میں ان کی شرح اونچی ہے، لیکن امریکیوں کی نظر میں، ان کے حریف مٹ رومنی اقتصادی مسائل سے ان کے مقابلے میں بہتر طور پر نمٹ سکتے ہیں۔
براک اوباما امریکی ریاست ہوائی میں 1961 میں پیدا ہوئے تھے ۔ ان کا گھرانہ، ان کی بیگم مشیل اور دو بیٹیوں، مالیا اور ساشا پر مشتمل ہے ۔
ڈیموکریٹک ٹکٹ میں نائب صدر جو بائڈن ایک بار پھر ان کے ساتھ شریک ہوں گے۔ نائب صدر بننے سے پہلے، بائڈن چھ بار امریکی سینیٹ کے رکن رہ چکے تھے ۔ انہیں خارجہ پالیسی کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔ وہ سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کی صدارت کر چکے ہیں۔
صدر اور نائب صدر ، جمعرات، 6 ستمبر کو ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن سے خطاب کریں گے ۔
چار سال قبل ، براک اوباما، امریکہ کے 44 ویں صدر منتخب ہوئے تھے۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے انہیں ایسے کنونشن میں نامزد کیا تھا جو جوش و خروش سے بھر پور تھا اور جس میں ملک کی بگڑتی ہوئی اقتصادی حالت پر لوگوں کی بے اطمینانی اور مایوسی پر توجہ مرکوز کی گئی تھی ۔ اس صورتِ حال کی مناسبت سے مسٹر اوباما نے جس نعرے کو اپنا نصب العین قرار دیا وہ تھا ’’ایسی تبدیلی جس پر اعتبار کیا جا سکتا ہے ۔‘‘
مسٹر اوباما اب وائٹ ہاؤس میں تقریباً چار سال مکمل کر چکے ہیں۔ معیشت کی حالت بہتر ہوئی ہے لیکن اتنی نہیں جتنی کہ بہت سے لوگوں کو امید تھی۔ بعض سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ مسٹر اوباما کو پتہ چل گیا ہے کہ انتخابی مہم چلانے اور ملک کو چلانے میں بہت بڑا فرق ہے۔
جینیفر لالیس امریکن یونیورسٹی میں وویمن اینڈ پولیٹکس انسٹیٹیوٹ کی سربراہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں’’ انھوں نے بہت سے وعدے اس تصور کی بنیاد پر کیے تھے کہ واشنگٹن میں دونوں پارٹیوں کے درمیان کسی حد تک تعاون ہو گا اور جب جان بوئہنر ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر منتخب ہو گئے، تو اس کے فوراً بعد یہ واضح ہو گیا کہ ریپبلیکنز کا اولین مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ایسا نہ ہونے پائے ۔‘‘
اس کی ایک مثال وہ قانون ہے جسے ڈریم ایکٹ کہا جاتا ہے ۔ اس کے تحت قانون کی پابندی کرنے والے ایسے تارکینِ وطن کو شہریت مل جاتی جو بچپن میں غیر قانونی طور پر امریکہ پہنچے تھے ۔ صدر نے اس قانون کی تائید کی، لیکن یہ کانگریس میں نہیں پہنچ سکا۔
جون میں صدر اوباما نے اعلان کیا کہ امریکہ عارضی طور سے ایسے تارکینِ وطن کو ملک سے نکالنے کی کارروائی روک دے گا جو ڈریم ایکٹ کے تحت ملک میں رہنے کے اہل ہوتے۔
اس دوران، ان کی انتظامیہ نے جتنی بڑی تعداد میں غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک سے نکالا ہے ، اتنے لوگ کسی اور صدر کے دور میں نہیں نکالے گئے ۔
انتخابی مہم میں صدر اوباما نے ملک میں علاج معالجے کے نظام کی اصلاح کا جو وعدہ کیا تھا، انھوں نے اسے پورا کیا ۔ اگرچہ اس کے نتیجے میں جو قانون بنا ہے وہ بہت متنازع ہے، لیکن سپریم کورٹ نے اس کی اہم شقوں کو برقرار رکھا ہے ۔
انھوں نے اقتصادی بحالی کا 787 ارب ڈالر کا پیکیج پیش کیا اور کانگریس نے اسے منظور کر لیا۔ اس کے بعد انھوں نے کاریں تیار کرنے والی امریکی کمپنیوں، جنرل موٹرز اور کرائسلر کو مشکلات سے نکالنے کے منصوبے پر عمل در آمد کیا۔
صدر اوباما کے دورِ حکومت میں، گیارہ ستمبر 2011 کے دہشت گردی کے حملوں کے ملزم، اسامہ بن لادن کا پاکستان میں سراغ لگایا گیا، اور اچانک فوجی آپریشن میں اسے ہلاک کر دیا گیا۔صدر نے عراق سے امریکی فوجیں نکال لیں، افغانستان میں فوجوں کی تعداد میں اضافہ کیا، اور روس کے ساتھ تخفیفِ اسلحہ کے نئے سمجھوتے پر دستخط کیے۔
براک اوباما پہلے افریقی امریکی ہیں جو امریکہ کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ وہ پہلے صدر ہیں جنھوں نے ایک ہی جنس کے لوگوں کے درمیان شادی کو قانونی حیثیت دینے کی حمایت کی ہے ۔
رائے عامہ کے جائزوں میں، ذاتی مقبولیت کے شعبے میں ان کی شرح اونچی ہے، لیکن امریکیوں کی نظر میں، ان کے حریف مٹ رومنی اقتصادی مسائل سے ان کے مقابلے میں بہتر طور پر نمٹ سکتے ہیں۔
براک اوباما امریکی ریاست ہوائی میں 1961 میں پیدا ہوئے تھے ۔ ان کا گھرانہ، ان کی بیگم مشیل اور دو بیٹیوں، مالیا اور ساشا پر مشتمل ہے ۔
ڈیموکریٹک ٹکٹ میں نائب صدر جو بائڈن ایک بار پھر ان کے ساتھ شریک ہوں گے۔ نائب صدر بننے سے پہلے، بائڈن چھ بار امریکی سینیٹ کے رکن رہ چکے تھے ۔ انہیں خارجہ پالیسی کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔ وہ سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کی صدارت کر چکے ہیں۔
صدر اور نائب صدر ، جمعرات، 6 ستمبر کو ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن سے خطاب کریں گے ۔