رسائی کے لنکس

صدر اوباما نیتن یاہو، محمود عباس سے ملاقات کریں گے


صدر اوباما نیتن یاہو، محمود عباس سے ملاقات کریں گے
صدر اوباما نیتن یاہو، محمود عباس سے ملاقات کریں گے

امریکہ کےصدر براک اوباما بدھ کو نیویارک میں فلسطین کے صدر محمود عباس اور اسرائیل کے وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو سے علیحدہ علیحدہ ملاقات کر رہے ہیں جن میں دونوں ممالک کے درمیان اقوامِ متحدہ کے سربراہی اجلاس میں متوقع سفارتی تصادم سے گریز کے امکانات پر غور کیا جائے گا۔

صدر عباس اقوامِ متحدہ کے حالیہ اجلاس کے دوران فلسطین کو آزاد مملکت کی حیثیت سے تسلیم کرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ تاہم اوباما انتظامیہ نے خبردار کیا ہے کہ وہ اس مقصد کے لیے پیش کی جانے والی فلسطینی قرارداد کو ویٹو کردے گی۔

امریکی حکومت اس معاملے پر اقوامِ متحدہ میں ممکنہ سفارتی تصادم سے بچنے اور فریقین کے مابین براہِ راست مذاکرات کی بحالی کو کوششوں میں مصروف ہے۔

مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے تشکیل دیے گئے چار فریقی گروپ میں شامل امریکہ، یورپی یونین، اقوامِ متحدہ اور روس کے سینئر سفارت کار رواں ہفتے فریقین کے درمیان کسی اتفاقِ رائے کے حصول کے لیے مسلسل مذاکرات میں مصروف رہے ہیں۔

سفارت کار فریقین کے درمیان مستقبل کے امن مذاکرات کے لیے رہنما اصول طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن میں انہیں اب تک کامیابی نہیں ہوئی ہے۔

امریکی ثالثی میں ہونے والے فلسطین و اسرائیل کے درمیان براہِ راست مذاکرات گزشتہ برس اس وقت تعطل کا شکار ہوگئے تھے جب اسرائیلی حکومت نے فلسطینی علاقوں میں صیہونی بستیوں کی تعمیر پر عائد عارضی پابندی میں مزید توسیع سے انکار کردیا تھا۔

واضح رہے کہ فلسطینی ان تمام مقبوضات پر اسرائیلی تعمیرات کے مخالف ہیں جنہیں وہ اپنی مستقبل کی ریاست کا حصہ دیکھنے چاہتے ہیں۔

دریں اثناء اسرائیل کے وزیرِ خارجہ ایوڈگور لائبرمین نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر پہ کوئی پابندی عائد نہیں کی جائے گی۔

اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو نے بذاتِ خود ذرائع ابلاغ کے ذریعے فلسطینی رہنما محمود عباس سے اپیل کی ہے کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان امن مذاکرات کی بحالی کے لیے نیویارک میں ان سے ملاقات کریں اور ملاقاتوں کے اس سلسلہ کو یروشلم اور مغربی کنارے کے شہر راملہ میں بھی جاری رکھیں۔

اسرائیلی وزیرِاعظم کی اس اپیل کے بعد فلسطینی رہنماؤں پر اپنی علیحدہ ریاست کو تسلیم کرانے سے متعلق درخواست اقوامِ متحدہ میں پیش نہ کرنے کے لیے دباؤ میں اضافہ ہوگیا ہے۔ تاہم اسرائیلی وزیرِاعظم کے بیان سے ایسا کوئی عندیہ نہیں ملتا کہ آیا وہ فلسطینیوں کو کوئی مطالبہ بھی تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں یا نہیں۔

ادھر بدھ کو فلسطینی علاقے مغربی کنارے کے مختلف قصبوں میں ہزاروں شہریوں نے جمع ہوکر آزاد ریاست کےحق میں مظاہرے کیے۔ اس موقع پر علاقے میں تعلیمی ادارے اور سرکاری دفاتر بند تھے اور طلبہ اور سرکاری ملازمین کو ان مظاہروں میں شرکت کی اجازت دی گئی تھی۔

اسرائیل کا موقف ہے کہ فلسطین کو اقوامِ متحدہ سے علیحدہ ریاست تسلیم کرانے کی کوششیں بالآخر ناکامی سے دوچار ہوں گی اور فلسطینیوں کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر آنا پڑے گا۔

تاہم ترکی کے وزیرِ خارجہ احمد اوغلو نے منگل کو واضح کیا کہ ان کی حکومت فلسطینی کوششیں کی مکمل حمایت کرتی ہے۔

اس سے قبل پیر کو فلسطین کے صدر محمود عباس نے اقوامِ متحدہ کےسیکرٹری جنرل بان کی مون سے ملاقات کرکے انہیں عالمی ادارے کی مکمل رکنیت کے حصول کی فلسطینی کوششوں سے آگاہ کیا تھا۔

ملاقات کے دوران عالمی ادارے کے سربراہ نے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں پر زور دیا کہ وہ تنازع کے حل کے لیے ان کے بقول "ایک قانونی اور متوازن دائرے" کے اندر رہتے ہوئے براہِ راست مذاکرات کا دوبارہ آغاز کریں۔

صدر عباس کا موقف ہے کہ فلسطین کی مجوزہ ریاست 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ سے قبل کی حد بندیوں پر مشتمل ہوگی۔ اس جنگ کے دوران اسرائیل نے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر قبضہ کرلیا تھا۔

XS
SM
MD
LG