یروشلیم —
اسرائیل اور فلسطینی علاقوں میں سرکاری عہدے داروں نے صدر براک اوباما کے دور ے کے منصوبے کا خیر مقدم کیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ اس سے ان کے اس عندیے کا اظہار ہوتا ہے کہ صدارت کی دوسری مدت میں، ان کی خارجہ پالیسی میں مشرقِ وسطیٰ کو ترجیحی مقام حاصل ہوگا ۔
اسرائیلی اور فلسطینی عہدے داروں نے بدھ کے روز صدر اوباما کے مجوزہ دورے کا خیر مقدم کیا۔ صدارت کی دوسری مدت میں یہ ان کا پہلا غیر ملکی دورہ، اور یہاں ان کی صدارت کا بھی پہلا دورہ ہو گا۔ مسٹر اوباما 2008 میں اپنی انتخابی مہم کے دوران اسرائیل گئے تھے۔
وزیرِ اعظم بنجامن نیتن یاہو کے ترجمان مارک ریگیو کہتے ہیں کہ اس دورے سے امریکہ اور اسرائیل کے درمیان گہرے تعلق کا اظہار ہو گا۔ ’’اس دورے سے دونوں ملکوں کے درمیان پائے جانے والے نہایت اعلیٰ تعاون کے بارے میں بات چیت کا موقع ملے گا، اور ہم بعض دشواریوں کے بارے میں بھی بات کریں گے۔ ان میں سب سے پہلے وہ خطرہ ہے جو ایران کے نیوکلیئر اسلحہ کے حصول کی کوشش سے پیدا ہوا ہے۔‘‘
وائٹ ہاؤس نے اس دورے کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا ہے لیکن اسرائیلی میڈیا نے کہا ہے کہ یہ مسٹر نیتن یاہو کی اپنی مخلوط حکومت کی تشکیل کے بعد، مارچ کے آخر میں ہوگا ۔
اسرائیلی نائب وزیرِ اعظم سلوان شالوم نے اسرائیلی ریڈیو کو بتایا کہ اس دورے میں دو خاص مسائل پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔’’اول تو یہ کہ اسرائیلی فلسطینی امن کے عمل کو دوبارہ شروع کیا جائے اور اس کے لیے علاقائی حمایت پیدا کی جائے، اور دوسرے یہ کہ ایران اور اس کے شراکت داروں کے خلاف علاقائی اتحاد کی تعمیر کی جائے۔‘‘
ان کا اشارہ ایران، شام اور لبنان کی حزب اللہ تحریک کے درمیان فوجی تعاون کی طرف تھا ۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کی ان مخالف طاقتوں کے پاس ہزاروں مزائل ہیں جن کا رُخ اس کے علاقے کی طرف ہے اور انہیں روکنا ضروری ہے ۔
اطلاعات کے مطابق، اسرائیل کی فضائیہ نے گذشتہ ہفتے شامی مزائلوں کے ایک قافلے پر حملہ کیا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ لبنان کی سرحد کی طرف جا رہا تھا ۔
فلسطینی اتھارٹی صدر محمود عباس نے مسٹر اوباما کے مجوزہ دورے کا خیر مقدم کیا۔
فلسطین کی تنظیمِ آزادی کی ایک رکن، حنان عشروی نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ اس دورے کے ساتھ ہی امریکہ کوئی نیا طریقہ اختیار کرے گا اور مشرقِ وسطیٰ کے امن مذاکرات میں تعطل ختم ہو جائے گا۔’’ہمیں امید ہے کہ اس دورے سے مثبت اور تعمیری انداز میں رابطہ کرنے اور اس ارادے میں سنجیدہ ہونے کا اشارہ ملتا ہے تا کہ اسرائیلی قبضہ ختم ہو، اسرائیلی ہٹ دھرمی اور یکطرفہ اقدامات بھی ختم ہوں اور مؤثر اور منصفانہ امن کے لیے راہ ہموار کی جائے۔‘‘
فلسطینی عہدے داروں نے کہا ہے کہ وہ صرف اس صورت میں مذاکرات دوبارہ شروع کریں گے اگر اسرائیل مغربی کنارے میں یہودی بستیاں تعمیر کرنا بند کرے گا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ مذاکرات پیشگی شرائط کے بغیر شروع ہونے چاہئیں۔
فلسطینیوں کی مذاکراتی ٹیم کے ایک رکن، اور محمود عباس کے مشیرِ اعلیٰ محمد اشتائیح نے فلسطینی ریڈیو کو بتایا کہ 1978 کے کیمپ ڈیوڈ امن مذاکرات کی نتیجے میں اسرائیلی مصری امن سمجھوتہ ہوا کیوں کہ ان میں اس وقت کے صدرِ امریکہ، جمی کارٹر نے بذاتِ خود ثالثی کے فرائض انجام دیے تھے ۔’’اگر امن کی کوشش میں کوئی امریکی صدر براہِ راست خود حصہ نہیں لیتے، تو یہ کوشش ناکام ہو جائے گی۔‘‘
اسرائیل میں امریکہ کے سفیر ڈین شاپیرو نے مقامی میڈیا سے کہا کہ صدر اوباما جب اس علاقے کے دورے پر آئیں گے تو ان کے پاس ایک پیچیدہ لیکن فوری نوعیت کا ایجنڈا ہو گا۔
اسرائیلی اور فلسطینی عہدے داروں نے بدھ کے روز صدر اوباما کے مجوزہ دورے کا خیر مقدم کیا۔ صدارت کی دوسری مدت میں یہ ان کا پہلا غیر ملکی دورہ، اور یہاں ان کی صدارت کا بھی پہلا دورہ ہو گا۔ مسٹر اوباما 2008 میں اپنی انتخابی مہم کے دوران اسرائیل گئے تھے۔
وزیرِ اعظم بنجامن نیتن یاہو کے ترجمان مارک ریگیو کہتے ہیں کہ اس دورے سے امریکہ اور اسرائیل کے درمیان گہرے تعلق کا اظہار ہو گا۔ ’’اس دورے سے دونوں ملکوں کے درمیان پائے جانے والے نہایت اعلیٰ تعاون کے بارے میں بات چیت کا موقع ملے گا، اور ہم بعض دشواریوں کے بارے میں بھی بات کریں گے۔ ان میں سب سے پہلے وہ خطرہ ہے جو ایران کے نیوکلیئر اسلحہ کے حصول کی کوشش سے پیدا ہوا ہے۔‘‘
وائٹ ہاؤس نے اس دورے کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا ہے لیکن اسرائیلی میڈیا نے کہا ہے کہ یہ مسٹر نیتن یاہو کی اپنی مخلوط حکومت کی تشکیل کے بعد، مارچ کے آخر میں ہوگا ۔
اسرائیلی نائب وزیرِ اعظم سلوان شالوم نے اسرائیلی ریڈیو کو بتایا کہ اس دورے میں دو خاص مسائل پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔’’اول تو یہ کہ اسرائیلی فلسطینی امن کے عمل کو دوبارہ شروع کیا جائے اور اس کے لیے علاقائی حمایت پیدا کی جائے، اور دوسرے یہ کہ ایران اور اس کے شراکت داروں کے خلاف علاقائی اتحاد کی تعمیر کی جائے۔‘‘
ان کا اشارہ ایران، شام اور لبنان کی حزب اللہ تحریک کے درمیان فوجی تعاون کی طرف تھا ۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کی ان مخالف طاقتوں کے پاس ہزاروں مزائل ہیں جن کا رُخ اس کے علاقے کی طرف ہے اور انہیں روکنا ضروری ہے ۔
اطلاعات کے مطابق، اسرائیل کی فضائیہ نے گذشتہ ہفتے شامی مزائلوں کے ایک قافلے پر حملہ کیا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ لبنان کی سرحد کی طرف جا رہا تھا ۔
فلسطینی اتھارٹی صدر محمود عباس نے مسٹر اوباما کے مجوزہ دورے کا خیر مقدم کیا۔
فلسطین کی تنظیمِ آزادی کی ایک رکن، حنان عشروی نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ اس دورے کے ساتھ ہی امریکہ کوئی نیا طریقہ اختیار کرے گا اور مشرقِ وسطیٰ کے امن مذاکرات میں تعطل ختم ہو جائے گا۔’’ہمیں امید ہے کہ اس دورے سے مثبت اور تعمیری انداز میں رابطہ کرنے اور اس ارادے میں سنجیدہ ہونے کا اشارہ ملتا ہے تا کہ اسرائیلی قبضہ ختم ہو، اسرائیلی ہٹ دھرمی اور یکطرفہ اقدامات بھی ختم ہوں اور مؤثر اور منصفانہ امن کے لیے راہ ہموار کی جائے۔‘‘
فلسطینی عہدے داروں نے کہا ہے کہ وہ صرف اس صورت میں مذاکرات دوبارہ شروع کریں گے اگر اسرائیل مغربی کنارے میں یہودی بستیاں تعمیر کرنا بند کرے گا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ مذاکرات پیشگی شرائط کے بغیر شروع ہونے چاہئیں۔
فلسطینیوں کی مذاکراتی ٹیم کے ایک رکن، اور محمود عباس کے مشیرِ اعلیٰ محمد اشتائیح نے فلسطینی ریڈیو کو بتایا کہ 1978 کے کیمپ ڈیوڈ امن مذاکرات کی نتیجے میں اسرائیلی مصری امن سمجھوتہ ہوا کیوں کہ ان میں اس وقت کے صدرِ امریکہ، جمی کارٹر نے بذاتِ خود ثالثی کے فرائض انجام دیے تھے ۔’’اگر امن کی کوشش میں کوئی امریکی صدر براہِ راست خود حصہ نہیں لیتے، تو یہ کوشش ناکام ہو جائے گی۔‘‘
اسرائیل میں امریکہ کے سفیر ڈین شاپیرو نے مقامی میڈیا سے کہا کہ صدر اوباما جب اس علاقے کے دورے پر آئیں گے تو ان کے پاس ایک پیچیدہ لیکن فوری نوعیت کا ایجنڈا ہو گا۔