صدر اوباما کئی امریکی ریاستوں کے تازہ ترین دورے کے بعد جمعے کے روز وائٹ ہاؤس واپس پہنچے ۔ ان ریاستوں میں ان کی پارٹی کے امیدواروں کو، جن میں سینیٹ کے اکثریتی لیڈر،ہیری ریڈ بھی شامل ہیں، ریپبلیکن امیدواروں سے سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ریاست نواڈا میں، اور اس سے پہلے ریاست میسوری میں، صدر نے ان اقدامات کی تفصیل بتائی جو ان کی انتظامیہ نے اقتصادی نقصان کو دور کرنے اور ملک میں بے روزگاری کی اونچی شرح سے نمٹنے کے لیے کیے ہیں۔ انھوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ مالیاتی بحران اور کساد بازاری اس وقت شروع ہوئی تھی جب وائٹ ہاؤس میں رہنے والے صدر ریپبلیکن تھے۔
صدر کے لب و لہجے میں وہی جو ش و جذبہ ہے اور ان کی خطابت اتنی ہی پُر اثر ہے جتنی 2008 کے صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران تھی جب انھوں نے ریپبلیکن جان میک کین کو شکست دی تھی۔ریاست میسوری میں سینیٹ کے لیے ڈیموکریٹک امید وار رابن کاماہان کی حمایت میں انھوں نے جو کچھ کہا اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ وہ نومبر کے وسط مدتی انتخابات سے پہلے، ووٹروں کے سامنے کیا تصویر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مسٹر اوباما کہتے ہیں کہ ریپبلیکن پارٹی ہر چیز کے جواب میں نہیں کہنے والی پارٹی ہے جس نے ملک کے بڑے بڑے مسائل کے حل میں ان کے ساتھ مِل کر کام کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔’’ریپبلیکنز سمجھتے ہیں کہ اگر وہ نہیں کی رٹ لگاتے رہیں گے تو انہیں نومبر میں زیادہ ووٹ ملیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم اوباما کو روک سکیں تو لوگ ہمیں اچھا سمجھیں گے۔ لیکن اس طرح ہم ان مشکلات سے نہیں نکل سکتے جن میں ہمارا ملک گرفتار ہے۔ اس طرح تو ہم اور پیچھے چلے جائیں گے۔ ہمیں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔‘‘
اوباما کی اقتصادی پالیسیوں کی مذمت میں، کانگریس کے بعض اہم ریپبلیکن ارکان نے حالیہ ہفتوں کے دوران کچھ ایسی باتیں کہہ دی ہیں جن سے خود ان کے موقف کو نقصا ن پہنچا ہے ۔ اخبارپِٹسبرگ ٹرائبیون۔رویو کے ایڈیٹروں کے ساتھ ایک انٹرویو میں ایوانِ نمائندگان کے ریپبلیکن لیڈرجان بوئہنر نے مالی نظام کی اصلاح کے بِل کے بارے میں جو کانگریس جلد ہی منظور کر دے گی، کہا’’
یہ تو بالکل ایسا ہوگا جیسے کسی چیونٹے کو مارنے کے لیے جوہری بم استعمال کیا جائے۔‘‘
ریاست میسوری میں اور اس سے پہلے اپنے وسکانسن کے دورے میں، صدر نے بوئہنر کے ریمارکس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ اس بات کی مثال ہے کہ ریپبلیکنز ان دشواریوں سے کتنے بے خبر ہیں جن کا امریکیوں کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔’’انھوں نے کہا ہے کہ ہمیں اس سب کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ تو بالکل ایک چیونٹے کو ایٹم بم سے مارنے کے مترادف ہے ۔عظیم کساد بازاری کے بعد اس سب سے بڑے اقتصادی بحران کو انھوں نے چیونٹے کا نام دیا ہے ۔ اس کی تو فلم بن سکتی ہے، چیونٹا جو معیشت کو کھا گیا۔‘‘
مسٹر بوئہنر نے اور ان کے ساتھی ریپبلیکن جو بارٹن جنھوں نے جون میں کہا تھا کہ وائٹ ہاؤس نے بی پی کمپنی سے یہ مطالبہ کر کے کہ وہ 20 ارب ڈالر کا معاوضے کافنڈ قائَم کرے، اس کے ساتھ زبردستی کی ہے، بعد میں وضاحتی بیان جاری کیے ۔ریپبلیکنز کے ان بیانات سے صدر اوباما کو انتخابی مہم کے لیے مزید مواد مِل گیا ہے ۔
سینٹ کے اکثریتی لیڈرہیری ریڈ ریاست نواڈا میں اپنی نشست بچانے کے لیے اپنے ریپبلیکن حریف سے سخت مقابلہ کر رہے ہیں۔صدر اوباما نے ریڈ کا پس منظر بیان کرتے ہوئے انہیں ایسے باکسر سے تشبیہ دی جو مکہّ کھا کر اٹھ کھڑا ہونا جانتا ہے اور بالآخر فتح اسی کی ہوتی ہے ۔
یہ بات ابھی واضح نہیں ہے کہ اب سے لے کر نومبر کے وسط مدتی انتخاب تک صدر کی مقبولیت کی شرح میں جو اکثریت کی سطح سے کم اور45سے 48فیصد تک رہی ہے، کچھ بہتری آئے گی یا نہیں۔ The Economist کے رائے عامہ کے جائزے کے مطابق، 52 فیصد امریکیوں نے مسٹر اوباما کی کارکردگی کو نا پسند کیا ہے ۔ دوسرے جائزوںمیں امریکیوں نے ان کے اقتصادی بحالی کے پروگرام کے موئثر ہونے کے بارے میں مسلسل شک و شبہے کا اظہار کیا ہے ۔