صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ امریکی اور ایرانی مذاکرات کاروں نے تہران کے جوہری پروگرام سے متعلق اپنے اختلافات کو کم کیا ہے، لیکن ان کے بقول اگر قابل قبول معاہدے تک رسائی نہ ہو سکی تو وہ مذاکرات ختم کرنے کو تیار ہیں۔
سی بی ایس ٹی وی نے صدر اوباما کا ایک ریکارڈ شدہ انٹرویو اتوار کو نشر کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی معاہدہ ہو اس میں ضروری ہے کہ مغربی معائنہ کاروں کو اس بات کی تصدیق کرنے کی اجازت دی جائے کہ تہران جوہری ہتھیار تیار کرنے کا کام نہیں کر رہا۔
اس معاہدے کے لیے مارچ کے اواخر کی ڈیڈ لائن متعین کی گئی ہے اور اوباما کا کہنا تھا کہ "اگر کوئی معاہدہ نہیں ہوتا تو ہم اس سے علیحدہ ہو جائیں گے۔"
بعد میں ٹی وی پر پروگرام "فیس دی نیشن" میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ وہ اور صدر اوباما "مشترکہ ہدف" رکھتے ہیں کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکا جائے۔ "لیکن یہ کیسے کیا جائے اس پر ہمارا اختلاف ہے۔"
ایران مُصر رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے اور یہ صرف سویلین توانائی اور استعمال تک محدود ہے۔
نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ وہ "آمرانہ ریاست کے ساتھ معائنے پر اعتماد" نہیں کرتے اور ان کے بقول وہ ایرانی مذاکرات کاروں اور تہران کی حکومت سے متعلق واشنگٹن کی نسبت "زیادہ محتاط" ہوتے۔
مزید برآں انھوں نے ایسی حکومت کے ساتھ مذاکرات پر اعتراض کیا جو حماس کے شدت پسندوں کی اتحادی ہو اور جو اسرائیل کے وقوع پذیر ہونے کے حق سے انکار ہو۔
رواں ماہ کے اواخر میں اسرائیل میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور اس سے قبل ہی نیتن یاہو نے واشنگٹن کا ایک منتازع دورہ کیا جہاں انھوں نے امریکی کانگریس سے خطاب میں ایران سے کسی ممکنہ جوہری معاہدے کو ایک "برا معاہدہ" قرار دیا تھا۔
ان کے اس خطاب پر صدر اوباما نے تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں ایران اور اس کے جوہری مقاصد سے نمٹنے کے لیے کوئی متبادل پیشکش نہیں کی گئی۔
وائٹ ہاوس کے حکام نے بھی کہا تھا کہ ایوان نمائندگان کے اسپیکر جان بوہنر کی طرف سے نیتن یاہو کو کانگریس سے خطاب کرنے کی دعوت دے کر اس سرکاری پروٹوکول کی خلاف ورزی کی جس کے تحت ریپبلکن لیڈر کو پہلے وائٹ ہاوس سے مشاورت کرنا ہوتی ہے۔