صدر براک اوباما کی انتظامیہ نے ایران کے ساتھ طے پانے والا جوہری معاہدہ منظوری کے لیے امریکی کانگریس کو بھجوادیا ہے۔
معاہدے کا مسودہ اتوار کو محکمۂ خارجہ نے کانگریس کو روانہ کیا ہے جس کے پاس معاہدے کا جائزہ لینے کے بعد اسے منظور یا مسترد کرنے کے لیے 60 روز کا وقت ہے۔
ری پبلکن حلقے پہلے ہی معاہدے پر کڑی تنقید کر رہے ہیں اور پارٹی کے کئی رہنما معاہدے کو مسترد کرنے کی دھمکی بھی دیتے آئے ہیں۔
معاہدے کی منظوری کے لیے اوباما انتظامیہ کانگریس کے زیادہ سے زیادہ ڈیموکریٹ ارکان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ ری پبلکنز کی سخت مخالفت کا توڑ کیا جاسکے۔
ساتھ ہی صدر اوباما واضح کرچکے ہیں کہ اگر کانگریس نے ایران کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کو مستردکیا تو وہ کانگریس کے اس اقدام کو 'ویٹو' کردیں گے۔
صدارتی 'ویٹو' کو غیر موثر کرنے کے لیے کانگریس کے دونوں ایوانوں – سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان - کے ارکان کی دو تہائی اکثریت درکار ہوگی جس کا حصول ری پبلکن کے لیے بظاہر مشکل نظر آتا ہے۔
اسرائیلی وزیرِاعظم کی اپیل
دریں اثنا اسرائیلی وزیرِاعظم نے امریکی کانگریس کے ارکان سے اپیل کی ہے کہ وہ عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان طے پانے والا جوہری معاہدہ رد کردیں۔
اتوار کو امریکی ٹی وی 'سی بی ایس' کے پروگرام 'فیس دی نیشن' میں گفتگو کرتےہوئے اسرائیلی وزیرِاعظم نے کہا کہ ایران کی جارحیت کو کئی طریقوں سے روکا جاسکتا ہے لیکن مجوزہ معاہدہ ان طریقوں میں شامل نہیں بلکہ یہ ایران کی "دہشت گردی میں اضافے" کا موجب ہوسکتا ہے۔
اسرائیلی وزیرِاعظم معاہدہ طےپانے کے بعد سے مسلسل امریکی ذرائع ابلاغ کو انٹرویوز دے رہے ہیں جس کا مقصد امریکی رائے عامہ اور فیصلہ ساز حلقوں کو معاہدے کی مخالفت پر آمادہ کرنا ہے۔
اتوار کو نشر ہونے والے انٹرویو میں نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ ایرانی رہنما کھلم کھلا اپنے ان عزائم کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ اقتصادی پابندیوں کے خاتمے کے نتیجے میں ملنے والے سیکڑوں ارب ڈالر کو دہشت گردی کے لیے استعمال کریں گے اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں، خصوصاً اسرائیل کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
معاہدے پر اسرائیل کے تحفظات دور کرنے کی غرض سے امریکی وزیرِ دفاع ایشٹن کارٹر اتوار کو یروشلم پہنچ رہے ہیں جہاں وہ وزیرِاعظم نیتن یاہو سمیت دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔
اسرائیل کے دورے کے بعد امریکی وزیرِ دفاع خطے میں امریکہ کے دو دیگر قریب ترین اتحادی ملکوں - اردن اور سعودی عرب - بھی جائیں گے۔
اسرائیل کی طرح خطے کے بیشتر عرب ممالک – خصوصاً خلیجی ریاستیں بھی ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر تشویش کا شکار ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ ایران مغربی ملکوں کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خطے میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافے کی کوششیں کرے گا۔