صدر براک او باما اپنےسالانہ’ اسٹیٹ آف دی یونین‘ خطاب کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ اس تقریر میں وہ سیاسی محاذ پر کم از کم ایک کامیابی کا ذکرکر سکتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ان کی ذاتی مقبولیت امریکی کانگریس کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
گیلپ پول کےایک حالیہ سروے کےمطابق صرف گیارہ فیصد امریکی، کانگریس کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔
آخر وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنےمنتخب نمائندوں پر بیشتر امریکیوں کا اعتماد ختم ہو چکا ہے۔
امریکی کانگریس نے گذشتہ سال کا بیشتر حصہ وفاقی بجٹ پر لڑنے جھگڑنے میں گذارا۔ ایک خاتون کا کہنا ہے کہ، ’اِن لوگوں کو بچوں کی طرح آپس میں لڑنے جھگڑنے سے ہی فرصت نہیں ملی ۔ انھوں نے کوئی کام نہیں کیا‘۔
ایک سال سے امریکی کانگریس میں کاروبار معطل ہے اور ریپبلیکنزاور ڈیموکریٹس ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہراتے رہے ہیں۔ یہ ہیں ایوانِ نمائندگان کے ریپبلیکن اسپیکر JOHN BOEHNER کے الفاظ :’اس ایوان نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے اور اب یہ انتظامیہ اور ایوان میں دوسری پارٹی کے ارکان کا کام ہے کہ وہ میز پر کوئی چیز لائیں۔ ہمیں بتائیے کہ آپ کا موقف کیا ہے ‘۔
صدر اوباما نے امریکی کانگریس پر الزام لگایا کہ اس نے ملک کو ایسے مرحلے پر پہنچا دیا تھا کہ وہ اپنے قرض کی ادائیگی نہ کرنے کا مرتکب ہو سکتا تھا۔ ان کے الفاظ ہیں:’ِاس شہر میں یہ نوبت نہیں آنی چاہیئے کہ ہم اس وقت تک مل جل کر کام نہ کریں جب تک قرض کی ادائیگی میں وعدہ خلافی کا یا اقتصادی تباہی کا خطرہ پیدا نہ ہو جائے‘۔
گذشتہ سال، امریکی کانگریس نے قوانین کے 80 مسودے منظور کیے۔ ایک سال پہلے یہ تعداد 258 تھی ۔ بہت سے امریکی اِس صورتِ حال پر نا خوش ہیں۔ یہ ہیں چند امریکیوں کی آوازیں:
ایک خاتون کہتی ہیں: ’میں سمجھتی ہوں کہ وہ مکمل طور سے اپنے راستے سے بھٹک گئے ہیں ۔ اگر میری کارکردگی امریکی کانگریس جیسی ہوتی، تو میری ملازمت کب کی ختم ہو چکی ہوتی‘۔
ایک شہری کہتے ہیں کہ، ’یہ لوگ بالکل نکمے، اور تنگ نظر ہیں ۔ یہ لوگ میرے مفاد میں، یا عام امریکی کے مفاد میں کوئی کام نہیں کر رہے ہیں‘۔
سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ امریکی کانگریس سے ووٹروں کی بے اطمینانی بہت گہری ہے ۔ گیلپ پول کے ایڈیٹر اِن چیف، FRANK NEWPORT کہتے ہیں: ’اِس وقت، امریکی کانگریس کے ارکان کی دیانتداری اور اخلاقی ساکھ، کسی بھی دوسرے پیشے کے لوگوں ے مقابلے میں کم ہے ۔ یہ شرح ٹیلی مارکٹرز سے بھی کم ہے جن کی اخلاقی شرح عام طور سے کم سمجھی جاتی ہے ۔ یہ کاروں کے سیلز مین سے بھی کم ہے، جو روایتی طور پر، کاروباری ساکھ میں سب سے نیچے سمجھے جاتے رہے ہیں‘۔
بہت سے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ امریکی کانگریس میں کوئی کام اس لیے نہیں ہو پاتا کیوں کہ ارکان اپنے اپنے موقف سے سرِ مو ہٹنا نہیں چاہتے۔ تاریخ داں ALLAN LICHTMAN کہتے ہیں: ’ہمارے ملک میں دو پارٹیاں ہیں جو اپنے نظریات اور ترجیحات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے انتہائی مختلف ہیں۔ بہت عشروں کے بعد ان پارٹیوں میں اتنا زیادہ اختلاف ہوا ہے ۔ ریپبلیکنز اور ڈیموکریٹس کا کسی بھی چیز پر متفق ہونا بہت مشکل ہے‘۔
کانگریس کے مقابلے میں صدر اوباما کی کارکردگی کی شرح اونچی ہے ۔ رائے عامہ کے حالیہ جائزوں کے اوسط کے لحاظ سے 46 فیصد لوگ صدر کو پسند کرتےہیں۔ لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ جب صدر نومبر میں صدارت کے لیے دوبارہ انتخاب لڑیں گے، تو انہیں اس صورتِ حال میں انتباہ کی علامت بھی نظر آئے گی ۔ گیلپ کے FRANK NEWPORT کہتے ہیں:’ ہم نے حال ہی میں ایک سوال پوچھا ہے: آپ واشنگٹن میں مختلف معاملات سے نمٹنے میں کس پر زیادہ اعتماد کرتےہیں، صدر اوباما پر یا ریپبلیکنز پر؟ اور اس سوال کے جواب میں جیت اوباما کی ہوئی ہے، لیکن صرف چند پوائنٹس سے‘۔
نومبر کے انتخاب میں ووٹروں کو اپنی مایوسی اور ناراضگی کے اظہار کا، اور بہت سے منتخب لیڈروں کو تبدیل کرنے کا موقع ملے گا، اگر انہیں ایسے امید وار مل سکے جو ان کے خیال میں بہتر کام کریں گے ۔