واشنگٹن —
امریکہ کے صدر براک اوباما نے صفِ اول کی امریکی ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کمپنیوں کے سربراہوں کے ساتھ ملاقات کی ہے جس میں اطلاعات کے مطابق حکومت کی جانب سے عام شہریوں کی نگرانی کے پروگرام پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق جمعرات کو ہونے والی اس ملاقات کا نہ تو 'وہائٹ ہائوس' کی جانب سے جاری کی جانے والی صدر کی روزانہ کی مصروفیات میں تذکرہ تھا اور نہ ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ کو اس بارے میں کچھ بتایا گیا۔
ایک امریکی ویب سائٹ 'پولیٹیکو' کے مطابق ملاقات میں 'ایپل' کے سی ای او ٹم کوک، 'اے ٹی اینڈ ٹی' کے سربراہ رینڈل اسٹیفنسن، 'گوگل' کے کمپیوٹر سائنٹسٹ ونٹ سرف اور دیگر اہم کمپنیوں کے ذمہ داران کے علاوہ امریکہ میں شہری آزادیوں کے تحفظ کے لیے سرگرم بعض رہنما بھی شریک تھے۔
'پولیٹیکو' نے ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ بند دروازے کے پیچھے ہونے والی یہ ملاقات منگل کو ہونے والی اسی نوعیت کے ایک اجلاس کا تسلسل تھی جس میں صدر کے علاوہ ان کی انتطامیہ کے بعض اعلیٰ عہدیداران، انٹرنیٹ سے متعلق لابنگ کرنےوالے اداروں کے سربراہ اور شہری آزادیوں کے تحفظ کے لیے سرگرم رہنما شریک تھے۔
'پولیٹیکو' کے مطابق جمعرات کو ہونے والی ملاقات کو "خفیہ" رکھنے کا پہلے اجلاس سے زیادہ اہتمام کیا گیا تھا ۔
ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ 'وہائٹ ہائوس' اور ملاقات میں شریک افراد کے متعلقہ اداروں اور کمپنیوں نے ملاقات کے بارے میں کسی قسم کا ردِ عمل ظاہر کرنے سے معذرت کرلی ہے۔
'پولیٹیکو' کے مطابق اوباما انتطامیہ کے ایک اہلکار نے بتایا ہے کہ حالیہ دونوں ملاقاتیں صدرکی ہدایت پر شروع کیے جانے والے قومی مکالمے کا حصہ ہیں جس کا مقصد 'ڈیجیٹل دور' میں شخصی آزادیوں کو متاثر کیے بغیر قومی سلامتی کا تحفظ یقینی بنانےکے لیے پالیسی وضع کرنا ہے۔
اہلکار کے مطابق ان ملاقاتوں کا مقصد حکومت کی جانب سے عام شہریوں کے انٹرنیٹ اور فون کالوں کی نگرانی کے عمل پر انٹرنیٹ ماہرین اور متعلقہ فریقوں کو اعتماد میں لینا ہے۔
امریکی خفیہ ادارے 'نیشنل سکیورٹی ایجنسی' کی جانب سے عام امریکی شہریوں کی ٹیلی فون کالوں اور انٹرنیٹ ڈیٹا کی نگرانی سے متعلق پروگرام کا بھانڈا پھوٹنے کے بعد امریکہ میں ان دنوں شخصی آزادیوں کے احترام اور حکومت کے نجی زندگیوں میں مداخلت کے اختیار پر زبردست بحث چھڑی ہوئی ہے۔
نگرانی کے اس منصوبے کا انکشاف 'این ایس اے' کے اہلکار ایڈورڈ سنوڈن نے دو ماہ قبل کیا تھا۔ سنوڈن نے ان دنوں روس میں سیاسی پناہ لے رکھی ہے جب کہ امریکہ نے انہیں انتہائی مطلوب قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف غداری اور جاسوسی کے الزامات کے تحت تحقیقات شروع کر رکھی ہیں۔
عوامی حلقوں کی جانب سے کڑی تنقید کے باوجود اوباما انتظامیہ نے خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے عوام کی نجی زندگیوں کی نگرانی کا دفاع کرتے ہوئے اسے جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق جمعرات کو ہونے والی اس ملاقات کا نہ تو 'وہائٹ ہائوس' کی جانب سے جاری کی جانے والی صدر کی روزانہ کی مصروفیات میں تذکرہ تھا اور نہ ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ کو اس بارے میں کچھ بتایا گیا۔
ایک امریکی ویب سائٹ 'پولیٹیکو' کے مطابق ملاقات میں 'ایپل' کے سی ای او ٹم کوک، 'اے ٹی اینڈ ٹی' کے سربراہ رینڈل اسٹیفنسن، 'گوگل' کے کمپیوٹر سائنٹسٹ ونٹ سرف اور دیگر اہم کمپنیوں کے ذمہ داران کے علاوہ امریکہ میں شہری آزادیوں کے تحفظ کے لیے سرگرم بعض رہنما بھی شریک تھے۔
'پولیٹیکو' نے ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ بند دروازے کے پیچھے ہونے والی یہ ملاقات منگل کو ہونے والی اسی نوعیت کے ایک اجلاس کا تسلسل تھی جس میں صدر کے علاوہ ان کی انتطامیہ کے بعض اعلیٰ عہدیداران، انٹرنیٹ سے متعلق لابنگ کرنےوالے اداروں کے سربراہ اور شہری آزادیوں کے تحفظ کے لیے سرگرم رہنما شریک تھے۔
'پولیٹیکو' کے مطابق جمعرات کو ہونے والی ملاقات کو "خفیہ" رکھنے کا پہلے اجلاس سے زیادہ اہتمام کیا گیا تھا ۔
ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ 'وہائٹ ہائوس' اور ملاقات میں شریک افراد کے متعلقہ اداروں اور کمپنیوں نے ملاقات کے بارے میں کسی قسم کا ردِ عمل ظاہر کرنے سے معذرت کرلی ہے۔
'پولیٹیکو' کے مطابق اوباما انتطامیہ کے ایک اہلکار نے بتایا ہے کہ حالیہ دونوں ملاقاتیں صدرکی ہدایت پر شروع کیے جانے والے قومی مکالمے کا حصہ ہیں جس کا مقصد 'ڈیجیٹل دور' میں شخصی آزادیوں کو متاثر کیے بغیر قومی سلامتی کا تحفظ یقینی بنانےکے لیے پالیسی وضع کرنا ہے۔
اہلکار کے مطابق ان ملاقاتوں کا مقصد حکومت کی جانب سے عام شہریوں کے انٹرنیٹ اور فون کالوں کی نگرانی کے عمل پر انٹرنیٹ ماہرین اور متعلقہ فریقوں کو اعتماد میں لینا ہے۔
امریکی خفیہ ادارے 'نیشنل سکیورٹی ایجنسی' کی جانب سے عام امریکی شہریوں کی ٹیلی فون کالوں اور انٹرنیٹ ڈیٹا کی نگرانی سے متعلق پروگرام کا بھانڈا پھوٹنے کے بعد امریکہ میں ان دنوں شخصی آزادیوں کے احترام اور حکومت کے نجی زندگیوں میں مداخلت کے اختیار پر زبردست بحث چھڑی ہوئی ہے۔
نگرانی کے اس منصوبے کا انکشاف 'این ایس اے' کے اہلکار ایڈورڈ سنوڈن نے دو ماہ قبل کیا تھا۔ سنوڈن نے ان دنوں روس میں سیاسی پناہ لے رکھی ہے جب کہ امریکہ نے انہیں انتہائی مطلوب قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف غداری اور جاسوسی کے الزامات کے تحت تحقیقات شروع کر رکھی ہیں۔
عوامی حلقوں کی جانب سے کڑی تنقید کے باوجود اوباما انتظامیہ نے خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے عوام کی نجی زندگیوں کی نگرانی کا دفاع کرتے ہوئے اسے جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔