امریکہ کے صدر براک اوباما نے قانون سازوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایران کے خلاف نئی تعزیرات کو اُس وقت تک موخر کر دیں جب تک اس کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر بات چیت جاری ہیں۔
صدر اوباما نے سرکردہ سینیٹرز کو منگل کو وائٹ ہاؤس میں مدعو کیا، جہاں حکام کے مطابق گفت و شنید کا سلسلہ ’’محض ایران پر مرکوز‘‘ رہا۔
صدر کے علاوہ وزیرِ خارجہ جان کیری اور قومی سلامتی سے متعلق مشیر سوزن رائس نے قانون سازوں سے گزارش کی کہ وہ پیش رفت کے عمل میں ایسے وقت بگاڑ پیدا نا کریں جب مغربی سفارت کار سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں ایران کو اس معاہدے پر راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے تحت تقریباً گرشتہ 10 برسوں میں پہلی مرتبہ تہران جوہری پروگرام میں پیش رفت بند کر دے گا۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے کہا ہے کہ جب کہ جنیوا میں مذاکرات کے نئے دور کا آغاز ہونے جا رہا ہے، ’’یہ مناسب ہوگا کہ سینیٹ نئی تعزیرات کو عارضی طور پر ملتوی کر دے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ آیا یہ مذاکرات آگے بڑھ سکتے ہیں اور ان میں پیش رفت ممکن ہے (یا نہیں)۔‘‘
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ جنیوا معاہدے سے موجودہ تعزیرات میں معمولی کمی آئے گی۔ اس کے بدلے میں ایران کے رہنما یہ یقین دلانے کی کوشش کریں گے کہ اُن کا ملک جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی تگ و دو نہیں کر رہا۔
مسٹر کارنی نے کہا: ’’صدر نے کہا کہ پہلے مرحلے میں ہم جو رعایت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ محدود، عارضی اور قابلِ منسوخ ہوں گے، اور اُنھوں نے واضح کیا کہ آئندہ چھ ماہ کے دوران ہم تعزیرات کا نفاذ جاری رکھیں گے۔‘‘
بین الاقوامی تعزیرات کی وجہ سے ایران کی معیشت انتہائی کمزور ہو چکی ہے۔
صدر اوباما نے سرکردہ سینیٹرز کو منگل کو وائٹ ہاؤس میں مدعو کیا، جہاں حکام کے مطابق گفت و شنید کا سلسلہ ’’محض ایران پر مرکوز‘‘ رہا۔
صدر کے علاوہ وزیرِ خارجہ جان کیری اور قومی سلامتی سے متعلق مشیر سوزن رائس نے قانون سازوں سے گزارش کی کہ وہ پیش رفت کے عمل میں ایسے وقت بگاڑ پیدا نا کریں جب مغربی سفارت کار سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں ایران کو اس معاہدے پر راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے تحت تقریباً گرشتہ 10 برسوں میں پہلی مرتبہ تہران جوہری پروگرام میں پیش رفت بند کر دے گا۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے کہا ہے کہ جب کہ جنیوا میں مذاکرات کے نئے دور کا آغاز ہونے جا رہا ہے، ’’یہ مناسب ہوگا کہ سینیٹ نئی تعزیرات کو عارضی طور پر ملتوی کر دے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ آیا یہ مذاکرات آگے بڑھ سکتے ہیں اور ان میں پیش رفت ممکن ہے (یا نہیں)۔‘‘
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ جنیوا معاہدے سے موجودہ تعزیرات میں معمولی کمی آئے گی۔ اس کے بدلے میں ایران کے رہنما یہ یقین دلانے کی کوشش کریں گے کہ اُن کا ملک جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی تگ و دو نہیں کر رہا۔
مسٹر کارنی نے کہا: ’’صدر نے کہا کہ پہلے مرحلے میں ہم جو رعایت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ محدود، عارضی اور قابلِ منسوخ ہوں گے، اور اُنھوں نے واضح کیا کہ آئندہ چھ ماہ کے دوران ہم تعزیرات کا نفاذ جاری رکھیں گے۔‘‘
بین الاقوامی تعزیرات کی وجہ سے ایران کی معیشت انتہائی کمزور ہو چکی ہے۔