روزنامہ ’نیویارک ٹائمز‘ نے اتوار کو خبر دی کہ اوباما انتظامیہ نے چین کے ان اہلکاروں کی امریکہ میں موجودگی کے بارے میں بیجنگ کو خبردار کیا ہے، جو امریکہ میں موجود چینی تارکیں وطن پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ وطن واپس جائیں۔
یہ خبر ایسے وقت سامنے آئی ہے جب دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں اور چین کے صدر شی جنپنگ کے دورہ امریکہ میں چند ہفتے باقی رہ گئے ہیں۔
اخبار نے امریکی عہدیداروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ بیجنگ نے اس کارروائی کا نام ’آپریشن فوکس ہنٹ‘ رکھا ہے اور یہ صدر شی جن پنگ کی بدعنوانی کے خلاف وسیع کارروائیوں کا حصہ ہے۔
یہ اقدام چینی حکومت کی انسداد بدعنوانی کی کوششوں کا حصہ ہے۔
’ٹائمز‘ جریدے کے مطابق اس میں ملوث ایجنٹ وزارت پبلک سکیورٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ سرکاری دورے پر امریکہ نہیں آئے۔ امکان ہے کہ انہوں نے سیاحتی یا تجارتی ویزوں پر امریکہ کا سفر کیا۔
’ٹائمز‘ کا کہنا ہے کہ 2014ء سے اب تک 930 افراد کو چین واپس بھیجا جا چکا ہے، جن میں وہ 70 افراد بھی شامل ہیں جو اپنی مرضی سے وطن واپس گئے۔ جریدے کا کہنا ہے کہ اس بین الاقوامی آپریشن کا مقصد اقتصادی بھگوڑوں کو تلاش کر کے انہیں وطن واپس آنے پر ’’آمادہ‘‘ کرنا ہے۔
اس آپریشن کے ڈائریکٹر لیو ڈونگ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ایجنٹوں کو مقامی قوانین کی پاسداری کی تلقین کی جاتی ہے مگر ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’’جب تک ہمارے پاس معلومات ہوں گی کہ کوئی مشتبہ مجرم موجود ہے، ہم ان کا پیچھا کریں گے اور ہم اپنا کام وہیں لے جائیں گے جہاں وہ ہوں گے۔‘‘
امریکہ میں قائم تحقیقی ادارے ’رینڈ کارپوریشن‘ سے وابستہ سکاٹ ہیرلڈ نے کہا اس آپریشن میں چینی حکام کے بقول بدعنوانی کے ملزم ’’چیتوں‘‘ یعنی اعلیٰ عہدیداروں اور ’’مکھیوں‘‘ یعنی کم درجے کے حکام کا پیچھا کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان عہدیداروں کو جو چین میں کام کرتے رہتے ہیں مگر اپنے متمول رشتہ داروں کو امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسے ممالک بھیج دیتے ہیں ’’برہنہ‘‘ کہا جاتا کہ جبکہ وہ عہدیدار جو اپنی دولت کے ساتھ ملک چھوڑ کر چلے جاتے ہیں انہیں ’’لومڑیاں‘‘ کہا جاتا ہے۔
’’اوباما انتظامیہ کی جانب سے اس بات کے مثبت اشارے دیے گئے ہیں کہ امریکہ ان لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے میں مدد کرے گا جو جھوٹے دعوؤں کی بنیاد پر امریکہ میں داخل ہوئے ہیں، یعنی وہ بدعنوان عہدیدار ہیں مگر انہوں نے پناہ کی درخواست میں غلط معلومات فراہم کیں، یا وہ امریکہ جعلی پاسپورٹ پر داخل ہوئے۔‘‘
ہیرلڈ نے مزید کہا کہ ’’امریکہ ایسے لوگوں کے لیے جائے پناہ نہیں بننا چاہتا، بشمول غیر ملکی عہدیداروں کے۔ تاہم یہ خیال کہ چین کچھ افراد کو یہاں مقیم چینیوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے امریکہ بھیجے اور ان کے اہل خانہ کو دھمکیاں دے یا جبر کرے اور جسمانی طور پر ڈرائے دھمکائے یا تشدد استعمال کرے۔ یہ سب امریکی قوانین کے خلاف ہے۔‘‘
’نیو یارک ٹائمز‘ نے کہا ہے کہ امریکی حکام نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ کتنے چینیوں پر واپس جانے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے مگر کہا کہ ان میں سے کچھ سیاسی جرائم کے لیے مطلوب ہیں۔