صدر براک اوباما نے جمعے کے روز اپنی انتظامیہ کی طرف سے حاصل کردہ کامیابیوں کا ذکر کیا، اور کہا کہ 2014ء ایکشن کا سال تھا، جس دوران کئی شعبہ جات میں واضح پیش رفت حاصل کی گئی۔ اس سلسلے میں، اُنھوں نے ملک کی فروغ پاتی ہوئی معاشی صورت حال، اور سفارتی اعتبار سے حاصل کردہ کامیابیوں کا ذکر کیا۔
اُنھوں نے کہا کہ معیشت، محکمہٴانصاف اور حکومتی عمل داری کے نظام میں بہتری لانے کے سلسلے میں مزید کام کی ضرورت ہے۔
وائٹ ہاؤس سے،اختتام ِسال اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، صدر نے ’افرڈ ایبل ہیلتھ کیئر ایکٹ‘ کا ذکر کیا، اور بتایا کہ گذشتہ سال صحت عامہ کے انشورنس کے سلسلے میں ایک کروڑ افراد نے اپنا نام درج کرایا۔
اُنھوں نے کہا کہ گذشتہ سال ملک میں ایک کروڑ دس لاکھ روزگار کے مواقع پیدا ہوئے، جو معاشی میدان میں، بذات خود ایک بڑی پیش رفت ہے۔
صدر اوباما نے اِس امید کا اظہار کیا کہ کانگریس کے ساتھ اُن کے تعلقات مثبت نوعیت کے ہوں گے، جس کے ذریعے ملک کے لیے کارگر قانون سازی ممکن ہوگی۔
اُن کا کہنا تھا کہ جہاں دونوں جماعتوں کی سوچ میں اختلافات ہیں، وہیں کئی معاملوں پر دونوں کی سوچ یکساں ہے، جن میں اتفاقِ رائے کے امکانات زیادہ ہیں، جو ملک کے لیے مفید کارکردگی کا باعث ثابت ہوں گے۔۔ اِس سلسلے میں، صدر نے جن شعبوں کا ذکر کیا اُن میں زیریں ڈھانچے کی تعمیر، تعلیم میں بہتری لانا، صحت عامہ کی دیکھ بھال کا نظام، امیگریشن اصلاحات، معیشت کی مزید بہتری کے لیے اقدامات شامل ہیں۔
’سونی پکچرز‘ پر ہیکنگ کے حوالے سے، صدر نے کہا کہ ہیکرز کی اس دھمکی پر کہ وہ سنیماؤں پر حملے کریں گے، سونی نے فلم کی نمائش منسوخ کرکے ’غلطی کی‘۔
اُنھوں نے کہا کہ اُنھیں سونی کی تشویش سے ہمدردی تھی۔ ’لیکن، ہم ایسے معاشرے کے خواہاں نہیں، جس میں باہر کا کوئی آمر ہمارے اوپر سینسرشپ عائد کرے‘۔
صدر اوباما نے یہ بھی کہا کہ اس بات کا عندیہ نہیں ملا کہ اِس سائبر حملے میں کسی دوسرے ملک نے شمالی کوریا کی مدد کی۔
اُنھوں نے کہا کہ ’ہیکنگ کا جواب دیا جائے گا۔ لیکن، اس کے وقت اور طریقہ کار کا تعین ہم اپنے طور پر کریں گے‘۔
جمعے کے روز، ’ایف بی آئی‘ اعلان کر چکا ہے کہ سونی پر سائبر حملے میں شمالی کوریا ملوث ہے۔
ایک سوال کے جواب میں، اُنھوں نے کہا کہ کیوبا کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار ہونا ’عین امریکی مفاد میں ہے‘۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے معاملوں پر امریکہ ’اُسی شد و مد کے ساتھ زور دیتا رہے گا‘۔
اُنھوں نے اس بات کی وضاحت کی کہ اُن کا کیوبا کا یا صدر راہول کاسترو کا واشنگٹن کے دورے کا کوئی امکان نہیں، نہی اُس کا فی الحال کوئی امکان ہے۔
صدر اوباما نے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ کیوبا کو تنہا کرنے کی 50 برس سے جاری پالیسی کارآمد ثابت نہیں ہوئی۔ اُن کا کہنا تھا کہ کیوبا کے ساتھ تعلقات بحال ہونے سے، امریکہ کو کیوبا کی حکومت پر اثر و رسوخ کے استعمال کے بہتر مواقع میسر آئیں گے۔
اُنھوں نے کہا کہ کیوبا سے پابندیاں ہٹانے میں ابھی کچھ وقت لگے گا، جس پر کانگریس میں بحث ہوگا، اور اُس کی منظوری درکار ہوگی۔
امی گریشن کے اپنے اقدام کے سلسلے میں، مسٹر اوباما کا کہنا تھا کہ کانگریس کی طرف سے بِل کی منظوری کا طویل انتظار کرکے، اُنھوں نے بہت زیادہ صبر اور لچک کا مظاہرہ کیا۔
اپنی طرف سے جاری کردہ انتظامی حکم نامے کا دفاع کرتے ہوئے، صدر اوباما نے کہا کہ اس طرح غیر قانونی افراد کے لیے شہریت کا راستہ کھل جائے گا۔
نومبر میں کانگریس کے انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی شکست کے بعد، صدر اوباما کی طرف سے وائٹ ہاؤس میں کی جانے والی یہ پہلی اخباری کانفرنس تھی۔
اُن کی دوسری میعادِ صدارت کو ختم ہونے میں دو برس باقی رہ گئے ہیں۔
بعدازاں، خاتون اول مشیل اوباما اور اپنی دو بیٹیوں کے ہمراہ، موسم سرما کی تعطیلات گزارنے کے لیے، صدر جزیرہ نما ریاستِ ہوائی روانہ ہوئے۔