پہلے طوطے فال نکالا کرتے تھے اب آکٹوپس پیش گوئیاں کرنے لگے ہیں اور وہ بھی فٹ بال کی کہ کونسی ٹیم کپ اٹھائے گی اور کس ٹیم کے کھلاڑی رات کی تاریکی میں چوری چھپے اپنے گھر جائیں گے۔
فٹ بال میں لوگوں کی دلچسپی اور جوش و خروش کا یہ عالم ہے کہ میچ ہارنے کے بعد فرانس اور اٹلی جیسے ترقی یافتہ ملکوں کے کھلاڑیوں کوبھی اپنے گھر جانے کے لیے پولیس کی مدد لینی پڑی تھی۔
جنوبی افریقہ کے گراؤنڈ میں اترنے والی ٹیموں کے مقدر کا فیصلہ سنانے والا آکٹوپس، سمندر کے نمکین پانیوں میں رہنے والا کوئی عام سا آکٹوپس نہیں ہے، بلکہ وہ جرمنی کے شہر اوبرہاؤزن کے ایک شانداراکیوریم کاآکٹوپس ہے اور اور طرہ امتیاز یہ کہ وہ پیدا بھی سمندر کی دلدل میں نہیں بلکہ برطانیہ کے سمندری حیات کے ایک مشہور مرکز ویماؤتھ میں ہواتھا۔اس کا باقاعدہ ایک نام ہے، یعنی پال ڈی آکٹوپس۔
اوبرہاؤزن اکیوریم کے ڈائریکٹر ڈینیئل فے کا کہناہے کہ پال اپنے بچپن ہی سے بہت ذہین ہے اور اپنی دلچسپ حرکتوں کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن رہاہے۔فے کہتے ہیں کہ پال عام آکٹوپس جیسا نہیں ہے،بلکہ اس کی بات ہی کچھ اور ہے۔
تاہم یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ پال سے پیش گوئیاں کرانے کا خیال کسے آیا؟ اکیوریم کی انتظامیہ کو، فٹ بال کے کسی کھلاڑی کو، کھیل پرکسی شرطیں لگوانے والے کو،کسی توہم پرست کو یا پھر ٹیلی ویژن پر میچ دیکھ دیکھ کر پال ڈی آکٹوپس نے خودہی یہ فیصلہ کرلیا کہ یہ کھیل تو وہ اپنے اکیوریم میں خود کھیل سکتا ہے اور کھیل بھی ایسا کہ ہنگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ چوکھا۔
فٹ بال ورلڈ کپ میں تین چیزوں نے بڑی شہرت حاصل کی ہے۔ یعنی نئی قسم کے فٹ بال جیولانی، پلاسٹک کے باجے ووووزیلا اور پال ڈی آکٹوپس نے۔ تاہم پال کا پلہ سب پر بھاری ہے ،خاص طورپر جرمنی اور یورپ میں۔وہاں کے اکثر ٹیلی ویژن چینلز کا محبوب موضوع مسلسل پال ڈی آکٹوپس بنا ہواہے۔
ورلڈ کپ کے آغاز سے، پال کے بڑے ناز نخرے اٹھائے جارہے ہیں۔ ہر اس میچ سے پہلے، جس میں جرمنی کی ٹیم شریک ہوتی ہے۔ پال کے ماہی خانے میں،شفاف شیشے کے دو ڈبے رکھے جاتے ہیں۔ ایک ڈبے پر جرمنی اور دوسرے ڈبے پر دوسرے ملک کے جھنڈے کی تصویر بنی ہوتی ہے۔ دونوں ڈبوں میں پال کی پسندیدہ ایک ہی غذا رکھی جاتی ہے۔ماہی خانے کے گرد ٹیلی ویژن کیمروں کے ہجوم اور فلیش لائٹوں کی چکا چوند میں پال ایک شان بے نیازی سے دونوں ڈبوں کا طواف کرتا ہے اور پھرایک ڈبے سے وہ خوراک نکال کرکھانا شروع کرتا ہے۔اس ڈبے کا جھنڈے کو دیکھ کر یہ پیش گوئی کردی جاتی ہے کہ وہ جنوبی افریقہ کا میدان مار لے گا۔
جرمنی اب تک ورلڈ کپ کے چھ میچوں میں حصہ لے چکاہے اور ان سب کے بارے میں پال کی پیش گوئیاں سوفی صد صحیح ثابت ہوچکی ہے۔
جرمنی نے اپنے گروپ میں مقابلے میں بالترتیب آسٹریلیا، سربیا اور گھانا کو شکست دی، ناک آؤٹ راؤنڈ میں اس نے انگلینڈ پر سبقت حاصل کی ، جب کہ کوارٹر فائنل میں ارجٹائن پر فتح یاب ہوا۔
سیمی فائنل میں جرمنی کا مقابلہ اسپین سے ہوناتھا۔ ڈبے کے انتخاب میں پال بڑی دیرتک ششں و پنج میں رہنے کے بعد اسپین کےحق میں فیصلہ دیا۔اس میچ میں بھی جرمنی کو اسپین کے ساتھ ایک سخت مقابلے کے بعد شکست ہوئی۔
تاہم میچ کے آخری لمحوں تک جرمن شائقین کو یہ شبہ رہا کہ اس بارپال کی پیش گوئی غلط ہوجائے گی ، جیسا کہ فٹ بال یورو کپ 2008ء میں اس کی 20 فی صد پیش گوئیاں غلط نکلی تھیں۔مگر لگتا یہ ہے کہ کسی اور نے تاریخ سے کچھ سیکھا ہویا نہ سکھا ہو، پال ڈی آکٹوپس نے اپنے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے ۔ اسی لیے موجودہ ورلڈ کپ میں اب تک اس کی کسی پیش گوئی پر ناکامی کا داغ نہیں لگا۔
پال کی پیش گوئی کے مطابق اتوار کے فائنل کا فاتح اسپین ہوگا اور ہفتے کے روز تیسری پوزیشن کا مقابلہ جرمنی جیتے گا۔ یقینناً اس پیش گوئی سےکواٹرفائنل میں اپنی ٹیم کی شکست پر افسردہ ہونے والے جرمنی کے شائقین بہت خوش ہوں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سنگاپور کا ایک 13 سالہ طوطا جس کا نام مانی ہے، ورلڈکپ پر باقاعدگی سے پیش گوئیاں کررہاہے۔اور اس کی پیش گوئیاں بھی درست ثابت ہورہی ہیں۔ اس نے فائنل میں پال کے برعکس نیدر لینڈ کے جیتنے کی پیش گوئی ہے۔
اب دیکھنا ہے کہ فائنل مقابلے میں جیت آکٹوپس کی ہوتی ہے یا طوطے کی۔