رسائی کے لنکس

اپنی سرحد پر امریکی ہتھیار برداشت نہیں کریں گے، روس کا انتباہ


Kosovo Albanians read the names of the victims killed during the 1998-1999 Kosovo war, as part of a ceremony marking the 18th anniversary of the massacre in the village of Izbica.
Kosovo Albanians read the names of the victims killed during the 1998-1999 Kosovo war, as part of a ceremony marking the 18th anniversary of the massacre in the village of Izbica.

روسی وزارتِ دفاع کے عہدیدار نے کہا کہ اگر امریکہ نے اپنے منصوبے پر عمل کیا تو روس اپنی مغربی سرحدوں کے دفاع کے لیے ہر ممکن جوابی اقدام کرنے میں آزاد ہوگا۔

روس نے اپنی پڑوسی ملکوں میں بھاری اسلحے کی منتقلی کےمجوزہ امریکی منصوبے پر سخت برہمی ظاہر کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ نے ایسا کیا تو ماسکو حکومت اس کا "مناسب" جواب دے گی۔

پیر کو اپنے ایک بیان میں روس کی وزارتِ دفاع کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ اگر امریکہ نے اپنے ٹینک، توپ خانہ اور دیگر اسلحہ مشرقی یورپ کے ملکوں اور بالٹک ریاستوں میں منتقل کرنے کے منصوبے پر عمل کیا تو یہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ کا سب سے جارحانہ اور اشتعال انگیز قدم ہوگا۔

روسی فوج کے جنرل یاکو بووف کے بقول امریکہ کی جانب سے ایسا کرنے کے بعدروس کے پاس اپنی مغربی سرحد پر اپنی فوجی قوت اور وسائل میں اضافے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں بچے گا۔

امریکہ نے پولینڈ اور بالٹک ریاستوں میں بھاری ہتھیاروں کے ذخیرے کا مبینہ فیصلہ روس کی یوکرین میں مداخلت کےبعد ان ملکوں میں بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کے احساس کے پیشِ نظر کیا ہے۔

پولینڈ اور بالٹک ریاستیں ماضی میں سوویت یونین کے زیرِ اثر رہ چکی ہیں لیکن 1990ء کی دہائی میں کمیونزم کے خاتمے اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد ان ملکوں کو 'نیٹو' میں شامل کرلیا گیا تھا۔

سابق سوویت ریاستوں اور اپنے دیگر پڑوسی ملکوں کے 'نیٹو' اور یورپی یونین کے ساتھ تعلقات روس اور امریکہ کے درمیان گزشتہ 25 برسوں سے کشیدگی کا ایک بڑا سبب رہے ہیں۔

پیر کو اپنے بیان میں روسی وزارتِ دفاع کے عہدیدار نے کہا کہ اگر امریکہ نے اپنے منصوبے پر عمل کیا تو روس اپنی مغربی سرحدوں کے دفاع کے لیے ہر ممکن جوابی اقدام کرنے میں آزاد ہوگا۔

اس سے قبل روسی حکومت کے ایک ترجمان نے مجوزہ امریکی منصوبے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا تھا جس کا عندیہ امریکی حکام نے گزشتہ ہفتے ہی دیا ہے۔

'کریملن' کے ترجمان دمیتری پیسکووف نے پیر کو صحافیوں کے سوالات پر کہا تھا کہ ماسکو حکومت امریکہ کی جانب سے اس منصوبے کے باضابطہ اعلان کے بعد ہی معاملے پر اپنا ردِ عمل دے گی۔

امریکی محکمۂ دفاع (پینٹاگون) نے مجوزہ منصوبے کو معمول کی کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس پر کسی کوئی کوئی تشویش نہیں ہونی چاہیے۔

'پینٹاگون' کے ایک ترجمان کے مطابق مجوزہ منصوبے کا مقصد خطے میں پہلے سے موجود امریکی ہتھیاروں کو مختلف تنصیبات میں منتقل کرنا ہے تاکہ فوجی تربیت کے لیے ان کا بہتر استعمال ممکن بنایا جاسکے۔

پولینڈ اور لتھوانیا کے حکام تصدیق کرچکے ہیں کہ انہوں نے گزشتہ ماہ امریکہ کے فوجی حکام کے ساتھ مجوزہ منصوبے پر تبادلہ خیال کیا تھا اور امریکی حکام نے اس تجویز پر جلد کوئی فیصلہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

اگر امریکی وزیرِ دفاع ایش کارٹر اور صدر براک اوباما نے مجوزہ منصوبے کی منظوری دیدی تو امریکہ جنگ میں استعمال ہونے والی گاڑیوں اور بھاری توپ خانے سمیت اپنے پانچ ہزار تک فوجی اہلکار بلغاریہ، ایسٹونیا، لٹویا، لتھوانیا، رومانیہ، پولینڈ اور ہنگری میں تعینات کرے گا۔ یہ تمام کے تمام ممالک ماضی میں سوویت یونین کے زیرِاثر رہ چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG