بین الاقوامی منڈی میں اس وقت خام تیل کی قیمتیں انتہائی کم سطح ہر ہیں اور یوں عالمی معیشت، جو کرونا وائرس کے سبب پہلے ہی انتہائی مندی کا شکار ہے، یہ ایک بڑا دھچکا ہے۔ خاص طور پر تیل پیدا کرنے والے ملکوں کے لئے جن کی معیشت کا بیشتر انحصار تیل پر ہوتا ہے۔
انرجی کے شعبے کے ممتاز تجزیہ کار فرحان محمود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ صورت حال دو باتوں کے امتزاج کے سبب پیدا ہوئی۔ اوّل روس اور سعودی عرب کے درمیان اس شعبے میں مقابلہ اور دوسرے کرونا وائرس کے سبب عالمی منڈی میں تیل کی طلب میں کمی جس کے باعث ایک جانب تو تیل پیدا کرنے والے ان ملکوں کا مارکیٹ شیر بڑھ گیا جو اوپیک کے ممبر نہیں تھے اور دوسری جانب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں گرنا شروع ہو گئیں۔
ایک اور ماہر معاشیات اور شکاگو یونیورسٹی میں مارکٹینگ کے پروفیسر ڈاکٹر ظفر بخاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ روس کو اپنی معیشت کے اعتبار سے اپنا تیل 40 ڈالر فی بیرل پر فروخت کرنے میں فائدہ نظر آیا، چنانچہ اس نے منڈی میں اپنا حصہ بڑھانے کے لئے اپنے تیل کی یہ ہی قیمت مقرر کی، جب کہ سعودی عرب سمیت اوپیک کے رکن ممالک 80 ڈالر فی بیرل پر اپنا تیل فروخت کر رہے تھے۔
لیکن روس کے تیل کی کم قیمت کے جواب میں سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے تیل کی قیمت 30 ڈالر فی بیرل تک گرا دی۔ دوسری جانب کرونا کے سبب پروازیں بند ہونے سے تیل کی ایک سو ملین بیرل یومیہ کی کھپت کم ہو کر 80 ملین بیرل پر آ گئی اور یوں عالمی منڈی میں کم طلب اور زیادہ رسد کے سبب تیل کی مقدار سرپلس ہو گئی جس سے یہ بحران پیدا ہو گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ چین کی جانب سے کرونا وائرس کی وبا پر قابو پا لینے کے اعلان کے بعد امید کی جا سکتی ہے کہ آئندہ دو سے تین مہینے میں معیشتوں میں استحکام آنا شروع ہو جائے گا اور جو صنعتیں بند ہیں وہ کھلنا شروع ہو جائیں گی۔ خاص طور پر ہم اگر چین اور جنوبی کوریا کے ماڈل کو سامنے رکھیں تو کہہ سکتے ہیں کہ تیل کی مِانگ میں پھر اضافہ شروع ہو جائے گا۔
جب کہ فرحان محمود کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ صورت حال زیادہ دیر تک جاری نہیں رہ سکتی کیونکہ اس سے تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی معیشتوں پر، جو پہلے ہی کرونا کی وجہ سے دوسرے ملکوں کی طرح بہت زیادہ متاثر ہیں۔ انتہائی منفی اثرات پڑیں گے اور تیل کی منڈی میں مسابقت کرنے والے ملکوں کے درمیان مفاہمت کی کوئی صورت نکال لی جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ ایک نیا آئیل کارٹیل وجود میں آ جائے۔