ایک ایسے وقت جب کرونا وائرس کی وبا دنیا کے ہر ملک کی معیشت کو متاثر کر رہی ہے، عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی سے ترقی پذیر ملکوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے؛ اور انہیں تیل کی درآمد کی مد میں اربوں ڈالر سالانہ کی بچت ہو رہی ہے۔
لیکن، تیل پیدا کرنے والے ملکوں کے لئے منڈی میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتیں اور ضرورت سے زیادہ تیل کی موجودگی خاص طور سے ان ملکوں کے لئے جنکی معیشتوں کا انحصار تیل پر ہے، نقصان کا سبب ہیں۔
اس لئے گزشتہ کئی ہفتوں سے، تیل پیدا کرنے والے ملک جن میں اوپیک کے رکن اور غیر رکن دونوں ممالک شامل ہیں، ایک سمجھوتے کے لئے کوشاں تھے، جس کے تحت تیل کی پیداوار میں کمی کرکے قیمتوں کو مستحکم کیا جا سکے اور اس سلسلے میں ابتدائی کوششوں میں ناکامی کے بعد اب اوپیک کے رکن اور غیر رکن ملکوں کے درمیان وڈیو لنک میٹنگ جسے VOPEC کا نام دیا گیا۔
اور ایسا لگتا ہے کہ روس سمیت تیل پیدا کرنے والے سارے ہی ملک تیل کی پیداوار میں کمی پر رضامند ہوگئے ہیں۔ خیال رہے کہ امریکہ اس کمی کے لئے کوشاں تھا اور بعض تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ امریکہ کے دباؤ کے سبب ہی سعودی عرب اسکے لئے تیار ہوا ہے۔ جمعرات اور جمعے کو یہ دو اجلاس ہوئے۔ جمعے کا اجلاس کوئی نو گھنٹے طویل تھا جس میں G20 گروپ کے رکن ممالک بھی شریک ہوئے۔
تیل کی صنعت کے ممتاز تجزیہ کار مسعود ابدالی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہر چند کہ ابھی اوپیک نے اس سلسلے میں کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا۔ لیکن، ایران کے تیل کے وزیر کا کہنا ہے کہ اوپیک رکن ممالک جس فارمولے پر تیار نظر آتے ہیں۔ وہ یہ ہی کہ مئی کے آغاز میں عالمی سطح پر تیل کی پیداوار میں ایک کروڑ بیرل یومیہ کی کمی کی جائے گی۔ پھر جولائی کے آخر میں پیداوار کا حجم 80 لاکھ بیرل کردیا جائے گا اور اگلے برس کے شروع میں موجودہ نشان سے ساٹھ لاکھ بیرل کم تیل نکالا جائے گا۔
اس میں وہ ملک بھی جو اوپیک کے رکن نہیں ہیں جیسے امریکہ، روس اور میکسیکو وغیرہ ہیں وہ بھی شامل ہیں۔
مسعود ابدالی کا کہنا تھا کہ اگر تیل کی پیداوار میں کمی کا کوئی حتمی فارمولا طے بھی ہو گیا تب بھی تیل کی قیمتوں میں فوری طور پر کسی بھاری اضافے کی توقع نہیں کی جا سکتی، کیونکہ اوّل تو اسوقت کئی کروڑ بیرل اضافی تیل مارکیٹ میں موجود ہے۔ اسکی فروخت میں وقت لگے گا۔ دوسرے کرونا وائرس کی وبا کے سبب دنیا بھر کی معیشتیں سست روی کا شکار ہیں اور تیل کی مِانگ پہلے کے مقابلے میں آدھی رہ گئی ہے۔ اور کرونا وائرس کی وبا کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں ہے کہ سال کے آخر تک بھی دنیا میں معاشی سرگرمیوں میں تیزی نہیں آ سکے گی۔ اس لئے، اس کٹوتی سے تیل پیدا کرنے والے ملکوں کو کوئی خاص فائدہ ہوتا نظر نہیں آتا۔
انہوں کہا کہ پیداوار میں کٹوتیوں کی تصدیق کس طرح ہو سکے گی، اسکا بھی کوئی فارمولا نہیں ہے۔ مثال کے طور پر سعودی عرب اس سطح سے کٹوتی کرے گا جس پر وہ اس وقت تیل پیدا کر رہا ہے، کیونکہ یہ اسکی حال ہی میں بڑھائی گئی سطح ہے۔ وہ پہلے 80 لاکھ بیرل تیل نکالتا تھا اور اب ایک کروڑ بیس لاکھ نکال رہا ہے یا امریکہ میں کوئ نو ہزار تیل کی کمپناں ہیں اور امریکہ جس کٹوتی پر رضامند ہوا ہے، اس پر عمل درآمد اور تصدیق کس طرح کی جاسکے گی یا روس کی پیداوار کی تصدیق کون کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ان چیزوں کی تصدیق کے لئے ایک باقاعدہ نظام ہونا چاہئیے۔
تیل کی صنعت کے ایک اور تجزیہ کار فرحان محمود نے بھی ان سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اگر تیل کی پیداوار میں کمی بھی ہو جاتی ہے اور منڈی کا اضافی تیل بھی ختم ہو جاتا ہے پھر بھی کھپت کم رہے گی، کیونکہ ابھی دنیا کی معاشی سرگرمیاں بحال ہونے میں بہت وقت لگے گا۔ اور اگر کھپت کم ہوگی تو تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا بھی تو معمولی سا ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ پینتیس ڈالر فی بیرل تک اس کی قیمت پہنچے گی اور ترقی پذیر ممالک بدستور اس سےفائدہ اٹھاتے رہیں گے۔