کراچی کا ساحل ’سی ویو‘ پچھلے تین چار دنوں سے تیل میں ’تر بتر‘ ہے۔ سطح سمندر پر تیل آگیا ہے۔ ریت پانی کے ساتھ ساتھ تیل سے گیلی ہو چکی ہے جبکہ مختلف علاقوں سے نالوں کے ذریعے بہہ کر آنے والے کچرے نے ساحل کو بدنما بنا دیا ہے۔
عید کے تیسرے دن سے ساحل پر تیل آیا ہوا ہے جس نے پانی کا رنگ تک گہرا کردیا ہے۔ آلودگی کے سبب مچھلیاں جن میں جیلی فش، اسٹار فش، کیکڑے اور دیگر آبی مخلوق شامل ہے ،ساحل پر مری پڑی ہے۔ ہوا میں تعفن پھیلا ہوا ہے جس سے انسانی زندگیوں کو بھی بیماریوں کا خطرہ ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف یعنی ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ پاکستان نے اس صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ادارے کی جانب سے عوام کو سی ویو پر کچھ روز نہ جانے کا مشورہ دیا گیا ہے۔
کراچی میں سی ویو پر رواں سال میں دوسری مرتبہ تیل آیا ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ چند روز تک سی ویو پر جانے سے گریز کریں۔ حکام کے مطابق تیل سمندر میں کئی کلومیٹر تک پھیل گیا ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے عہدیدار معظم خان نے صحافیوں کو بتایا کہ تیل کی موجودگی کی وجہ مون سون کی تیز ہوائیں ہیں جن کے سبب تیل ساحل پر آ گیا ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ آئل کافی پرانا ہےجو اس جانب اشارہ ہے کہ یہ کسی بحری جہاز وغیرہ سے لیک نہیں ہوا۔ تیل مون سون کی ہواؤں کے زور سے ساحل پر آیا اور ساحل کی ریت جلد اسے خشک کر دے گی۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ایک اور عہدیدار محمد ریاض نے وائس آف امریکہ سے خصوصی بات چیت میں کہا :’ بارشوں کے موسم میں ایسا ہونا ایک فطری اور قدرتی امر ہے۔ اب سے پہلے 20 مئی کو بھی کراچی کے ایک او رساحل ’سینڈزپٹ ‘ پر تیل آ چکا ہے۔ انسانی زندگیوں کو اس سے کوئی بڑا خطرہ نہیں تاہم آبی حیات اس سے بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ ‘
ادھر پاکستان فشر فوک فورم کے چیئرمین محمد علی شاہ کا کہنا ہے ’سطح سمندر پر تیل آنے سے بڑا خطرہ آلودگی ہے۔ کراچی کے ساحل کو آلودہ کرنے میں سب سے بڑا کردار خود انسانوں کا ہے کیوں سمندر کو بیمار کرنے والے ہم خود ہیں اور ہم ہی اس کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔ ‘
ان کا اپنی بات کے جواز میں یہ بھی کہنا ہے کہ ہم جو کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں سمندر اس کا تقریبا تیس فیصد جذب کرتا ہے جبکہ تقریباً پچاس فیصد آکسیجن سمندرسے حاصل ہوتی ہےلیکن اگر ہم نے آلودگی پھیلانا بند نہ کی تو صورتحال سنگین سے سنگین تر ہوتی چلی جائے گی۔ سمندری آلودگی کی وجہ سے پانی میں تیزابیت بڑھ رہی ہے۔
ماحولیات کے ماہرین کراچی کے ساحل پر پھیلے کچرے پر سب سے زیادہ تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ان کے مطابق کراچی کا ساحل پلاسٹک کے شاپنگ بیگز اور تھیلوں کے سبب سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ یہ بیگز اور تھیلیاں پانی میں کبھی نہیں گلتیں، دوسرے آبی حیات ان سے سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔
ایک جرمن تنظیم ’ہین رچ بیل فاؤنڈیشن‘کی شائع کردہ ’ اوشن اٹلس‘ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں ہرسال 300 ملین ٹن پلاسٹک پیدا ہوتا ہے۔ اس کا دو فیصد جو تقریباً آٹھ ملین میڑک ٹن بنتا ہے سمندرمیں پھینک دیا جاتا ہے۔ پلاسٹک کا بڑا حصہ سمندر کی تہہ میں چلاجاتا ہے جوآبی حیات کی افزائش کو متاثرکرتا ہے۔