ہر گھر میں بزرگ افراد کو ایک اہم مقام اور مرتبہ حاصل ہوتا ہے۔ مگر آج کل کے نفسا نفسی کے اس جدید دور میں اکثر و بیشتر بزرگ افراد کو گھر میں ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے۔
معاشرے کی تلخ سچائیوں میں ایک سچائی یہ بھی ہے کہ اکثر و بیشتر بزرگ افراد کو یا تو گھر کے کونے میں جگہ دی جاتی ہے، یا گھر سے نکال کر کسی اولڈ ایج ہوم میں داخل کرا دیا جاتا ہے۔
مغربی معاشرے کی طرح پاکستان میں معمر افراد کے لیے اولڈ ایج شیلٹر ہومز کا باقاعدہ کوئی نظام تو موجود نہیں تاہم ان اداروں کو نجی طرز پر چلایا جا رہا ہے یا پھر فلاحی طور پر۔
کراچی شہر میں بھی ان بزرگ افراد کی خدمت اور دیکھ بھال کے لیے ایسے چند ہی نجی ادارے موجود ہیں جو عمر کے آخری حصے میں موجود افراد کی دیکھ بھال کے لیے کام کر رہے ہیں۔
کراچی میں موجود ایک ایسا ہی ادارہ گلز شیلٹر اولڈ ایج ہوم ہے جہاں بزرگوں کی دیکھ بھال،کھانے پینے، علاج معالجے، رہنے کا انتظام کیا جاتا ہے۔"گلز اولڈ ایج شیلٹر ہوم" کے سربراہ سلیم گل پچھلے 5 برسوں سے بزرگوں کی خدمت کے لیےاپنا شیلٹر ہوم چلا رہے ہیں وہ پیشے سے ایک فزیو تھراپسٹ ہیں۔
سلیم گل بتاتے ہیں کہ اسی پیشے نے ان میں اولڈ ہوم بنانے کا خیال پیدا کیا۔ انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جب وہ فزیو تھراپی کی غرض سے مختلف جگہوں پر جاتے تھے تو گھروں میں موجود معمر افراد کی حالت زار دیکھ کر انھیں افسوس ہوتا کہ اپنی عمر کا عرصہ گزارنے کے بعد آج معمر افراد کس سختی کی زندگی گزار رہے ہیں جہاں ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہوتا گھر والوں کی جانب سے انھیں گھر کے کونے میں رکھا جاتا ہے۔
’’موجودہ دور میں معاشرے میں بے حسی اتنی بڑھ گئی ہے کہ لوگ گھر میں موجود بزرگوں کی اہمیت کو بھولتے جا رہے ہیں‘‘۔ سلیم گل کا مزید کہنا ہے کہ وہ ان معمر افراد کی دیکھ بھال کا ذمہ کسی کی ہمدردی بٹورنے یا دکھاوے کے لیے نہیں، بلکہ انسانی فلاح اور ہمدردی کے تحت کر رہے ہیں۔
اولڈ ایج شیلٹر ہوم میں رہائش پذیر معمر فرد آغا محمد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ 3 سال سے اس شیلٹر ہوم میں رہ رہے ہیں۔
ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے اکلوتے بیٹے اور بہو نے ریٹائرمنٹ ہینڈ شیک کی رقم لے کر انھیں گھر سے بے دخل کر دیا جس کے بعد آغا محمد در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور تھے کہ انھیں اس شیلٹر ہوم میں پناہ مل گئی۔ اپنے بیٹے کی بے مروتی کے باوجود وہ اپنے گھر اور بیٹے کو یاد کرتے ہیں مگر ان سے ملنے بھی کوئی نہیں آتا۔
اولڈ ہوم میں رہنے والی یاسمین طلعت نامی ایک اور معمر خاتون نے بتایا کہ انہیں یہاں 2 سال سے زائد کا وقت ہوگیا ہے ماں باپ کے لاڈ اور محبت کی وجہ سے انھوں نے شادی نہیں کی۔ اپنا دکھ بتاتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ جب سے ان کی ماں کا انتقال ہوا اس دکھ نے انھیں شدید ذہنی صدمے سے دوچار کردیا جس کے بعد ان کی تنہا زندگی میں کوئی پرسان حال نہیں تھا تو ان کے رشتے داروں نے انھیں یہاں داخل کروادیا۔
اسی اولڈ ہوم میں ذکیہ افتخار نامی ایک خاتون جو اپنے دور میں پیشے کے اعتبار سے ایک ٹیچر تھیں۔ مگر عمر کے اس حصے میں ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے گھر کو بہت یاد کرتی ہیں۔ گھر والے ملنے تو آ جاتے ہیں مگر دوبارہ گھر نہیں لےجاتے۔
نسیمہ نامی 54 سالہ خاتون کی کہانی بھی ان تمام سے مختلف نہیں، نسیمہ خاتون بظاہر تو بھلی چنگی خاتون ہیں مگر دماغی بیماری کے باعث یہاں داخل کرایا گیا ہے۔ نسیمہ خاتون بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے اور اکلوتی بیٹی کی شادی کے بعد دیکھ بھال کی ذمہ داری کسی نے نہیں اٹھائی۔
اولڈ ہوم میں خواتین کی دیکھ بھال کرنے والی ایک کارکن نے بتایا کہ ’’ہم پوری کوشش کرتے ہیں کہ انھیں گھر جیسا ماحول دیں مگر ان کے ذہنوں سے نا تو ان کا تلخ ماضی مٹا سکتے ہیں اور نہ ان کے پیاروں کی یادیں۔‘‘
معاشرے کی تلخ سچائیوں میں ایک سچائی یہ بھی ہے کہ اکثر و بیشتر بزرگ افراد کو یا تو گھر کے کونے میں جگہ دی جاتی ہے، یا گھر سے نکال کر کسی اولڈ ایج ہوم میں داخل کرا دیا جاتا ہے۔
مغربی معاشرے کی طرح پاکستان میں معمر افراد کے لیے اولڈ ایج شیلٹر ہومز کا باقاعدہ کوئی نظام تو موجود نہیں تاہم ان اداروں کو نجی طرز پر چلایا جا رہا ہے یا پھر فلاحی طور پر۔
کراچی شہر میں بھی ان بزرگ افراد کی خدمت اور دیکھ بھال کے لیے ایسے چند ہی نجی ادارے موجود ہیں جو عمر کے آخری حصے میں موجود افراد کی دیکھ بھال کے لیے کام کر رہے ہیں۔
کراچی میں موجود ایک ایسا ہی ادارہ گلز شیلٹر اولڈ ایج ہوم ہے جہاں بزرگوں کی دیکھ بھال،کھانے پینے، علاج معالجے، رہنے کا انتظام کیا جاتا ہے۔"گلز اولڈ ایج شیلٹر ہوم" کے سربراہ سلیم گل پچھلے 5 برسوں سے بزرگوں کی خدمت کے لیےاپنا شیلٹر ہوم چلا رہے ہیں وہ پیشے سے ایک فزیو تھراپسٹ ہیں۔
سلیم گل بتاتے ہیں کہ اسی پیشے نے ان میں اولڈ ہوم بنانے کا خیال پیدا کیا۔ انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جب وہ فزیو تھراپی کی غرض سے مختلف جگہوں پر جاتے تھے تو گھروں میں موجود معمر افراد کی حالت زار دیکھ کر انھیں افسوس ہوتا کہ اپنی عمر کا عرصہ گزارنے کے بعد آج معمر افراد کس سختی کی زندگی گزار رہے ہیں جہاں ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہوتا گھر والوں کی جانب سے انھیں گھر کے کونے میں رکھا جاتا ہے۔
’’موجودہ دور میں معاشرے میں بے حسی اتنی بڑھ گئی ہے کہ لوگ گھر میں موجود بزرگوں کی اہمیت کو بھولتے جا رہے ہیں‘‘۔ سلیم گل کا مزید کہنا ہے کہ وہ ان معمر افراد کی دیکھ بھال کا ذمہ کسی کی ہمدردی بٹورنے یا دکھاوے کے لیے نہیں، بلکہ انسانی فلاح اور ہمدردی کے تحت کر رہے ہیں۔
اولڈ ایج شیلٹر ہوم میں رہائش پذیر معمر فرد آغا محمد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ 3 سال سے اس شیلٹر ہوم میں رہ رہے ہیں۔
ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے اکلوتے بیٹے اور بہو نے ریٹائرمنٹ ہینڈ شیک کی رقم لے کر انھیں گھر سے بے دخل کر دیا جس کے بعد آغا محمد در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور تھے کہ انھیں اس شیلٹر ہوم میں پناہ مل گئی۔ اپنے بیٹے کی بے مروتی کے باوجود وہ اپنے گھر اور بیٹے کو یاد کرتے ہیں مگر ان سے ملنے بھی کوئی نہیں آتا۔
اولڈ ہوم میں رہنے والی یاسمین طلعت نامی ایک اور معمر خاتون نے بتایا کہ انہیں یہاں 2 سال سے زائد کا وقت ہوگیا ہے ماں باپ کے لاڈ اور محبت کی وجہ سے انھوں نے شادی نہیں کی۔ اپنا دکھ بتاتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ جب سے ان کی ماں کا انتقال ہوا اس دکھ نے انھیں شدید ذہنی صدمے سے دوچار کردیا جس کے بعد ان کی تنہا زندگی میں کوئی پرسان حال نہیں تھا تو ان کے رشتے داروں نے انھیں یہاں داخل کروادیا۔
اسی اولڈ ہوم میں ذکیہ افتخار نامی ایک خاتون جو اپنے دور میں پیشے کے اعتبار سے ایک ٹیچر تھیں۔ مگر عمر کے اس حصے میں ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے گھر کو بہت یاد کرتی ہیں۔ گھر والے ملنے تو آ جاتے ہیں مگر دوبارہ گھر نہیں لےجاتے۔
نسیمہ نامی 54 سالہ خاتون کی کہانی بھی ان تمام سے مختلف نہیں، نسیمہ خاتون بظاہر تو بھلی چنگی خاتون ہیں مگر دماغی بیماری کے باعث یہاں داخل کرایا گیا ہے۔ نسیمہ خاتون بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے اور اکلوتی بیٹی کی شادی کے بعد دیکھ بھال کی ذمہ داری کسی نے نہیں اٹھائی۔
اولڈ ہوم میں خواتین کی دیکھ بھال کرنے والی ایک کارکن نے بتایا کہ ’’ہم پوری کوشش کرتے ہیں کہ انھیں گھر جیسا ماحول دیں مگر ان کے ذہنوں سے نا تو ان کا تلخ ماضی مٹا سکتے ہیں اور نہ ان کے پیاروں کی یادیں۔‘‘