پاکستان سابق قبائلی علاقوں میں ابھی تک تعلیمی سرگرمیاں پوری طرح بحال نہیں ہوئی ہیں جس کی بنیادی وجہ اسکولوں کی بندش اور زیادہ تر اسکولوں میں اساتذہ اور دیگر سہولیات کی عدم دستیابی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سابق قبائلی علاقوں کے پرائمری اسکولوں میں تعلیمی سلسلہ منقطع کرنے والوں یعنی 'ڈراپ آؤٹس' کی شرح 73 فی صد ہے جو ملک کے دیگر تمام علاقوں سے کہیں زیادہ ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق ان علاقوں میں چار سال سے 16 سال کی عمر تک کے 10 لاکھ سے زیادہ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔
ضلع کرم سے تعلق رکھنے والے ایک طالبہ اور یوتھ جرگہ کی رکن نائلہ الطاف کا کہنا ہے کہ سابق قبائلی علاقوں میں دہشت گردی اور فوجی کارروائیوں کے باعث زیادہ تر اسکول تباہ ہوئے ہیں۔
ان کے بقول حکومتی ادارے ان علاقوں میں تعلیمی سہولتوں کی فراہمی پر کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں جس کی وجہ سے تعلیمی سرگرمیاں ابھی تک تعطل کا شکار ہیں۔
اُنہوں نے سابق قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد حکومتی اداروں کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار بھی کیا۔
خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ کے مشیر برائے تعلیم ضیاء اللہ بنگش نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ ڈراپ آؤٹ ہونے کی بنیادی وجہ تباہ شدہ اسکولوں کی تعمیرِ نو میں تاخیر، اسکولوں میں اساتذہ اور دیگر سہولتوں کا نہ ہونا ہے۔
تاہم اُنہوں نے کہا کہ اب وزیرِ اعظم عمران خان کی ہدایات کے مطابق سابق قبائلی علاقوں میں دیگر علاقوں کی طرح تعلیمی سرگرمیوں کو فروع دینے کے لیے حکمت عملی وضع کردی گئی ہے۔
ضیاء اللہ بنگش نے بتایا کہ چھ مہینے کے دوران تمام قبائلی اضلاع میں اسکولوں کی مرمت، سہولتوں کی فراہمی اور اساتذہ اور دیگر عملے کی تعیناتی کے لیے 18 ارب روپے مختص کر دیے گئے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ چند روز قبل تمام قبائلی اضلاع کے اسکولوں میں 2500 اساتذہ کی تعیناتی کے لیے اخبارات میں اشتہارات دیے گئے تھے جب کہ پہلے سے موجود تمام اساتذہ کو بھی ڈیوٹی پر حاضر ہونے کے احکامات دیے گئے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تمام قبائلی علاقوں میں 303 اسکول ابھی تک بحال نہیں ہوئے ہیں جب کہ 10 مکمل تباہ ہونے والے اسکولوں کی از سر نو تعمیر بھی نہیں ہوئی ہے۔
سابق قبائلی علاقوں میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائی کے باعث بڑی تعداد میں نقل مکانی نے بھی تعلیمی سرگرمیوں کو متاثر کیا ہے۔