بین الاقوامی ریڈ کراس 'آئی سی آر سی' نے متنبہ کیا ہے کہ یمن اور تین افریقی ملکوں میں قحط کے خطرے سے نمٹنے کے لیے اگر بر وقت اقدامات نا کیے گئے تو ان ملکوں میں لاکھوں افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے۔
’آئی سی آر سی‘ کا کہنا ہے کہ صومالیہ، یمن، جنوبی سوڈان اور شمال مشرقی نائیجیریا میں ممکنہ قحط کو روکنے کے لیے تیز تر اقدامات نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔
’آئی سی آر سی‘ کے ڈائریکٹر آپریشن ڈومینک اسٹل ہارٹ کا کہنا ہے کہ امدادی تنظیموں پر امداد فراہم کرنے کی سرگرمیوں میں تیزی سے اضافہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان ملکوں میں لاکھوں لوگوں کو غذائی قلت کی وجہ سے موت کا شکار ہونے سے بچایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ "یہ کوئی معمول کی صورت حال نہیں ہے۔۔۔۔ ہمیں اب اس کا فوری تدارک کرنا ہو گا۔ اگر اب ہم (فوری) اقدام اٹھاتے ہیں تو خاص طور پر یمن اور صومالیہ میں قحط کے بحران سے بچا جا سکتا ہے۔"
انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس نے خشک سالی سے متاثرہ چار ممالک میں بھوک کے خطرہ کا شکار ہونے والے افراد کے لیے خوراک، پانی اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے لیے 40 کروڑ ڈالر کی امداد کی اپیل کی ہے۔
اسٹل ہارٹ نے کہا کہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے اقدامات کو تیز کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ امدادی تنظیموں اور معاونت فراہم کرنے والے اداروں کو 2011ء میں صومالیہ میں قحط کی صورت حال سے نمٹنے کے معاملے سے سبق سیکھنا چاہیئے جب سست ردعمل کے سبب ’’دو لاکھ 60 ہزار افراد بھوک کی وجہ سے موت کا شکار ہو گئے جن میں ںصف سے زیادہ تعداد ان بچوں کی تھی جن کی عمر پانچ سال سے کم تھی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’آئی سی آر سی‘ کا عملہ ان چاروں ملکوں میں موجود رہ کر امداد تقسیم کر رہا ہے، تاہم صومالیہ اور یمن کو قحط کے ساتھ ساتھ شورش کا بھی سامنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ "ہم نے معاونت کرنے والے اداروں کا انتظار نہیں کیا ہے۔ ہم نے فوری طور پر فروری سے اس بحران سے نمٹنے کی کوشش شروع کر دی۔"
انہوں نے کہا کہ جنوبی سوڈان اور نائیجیریا میں صورت حال اس لیے مختلف ہے کیونکہ ان دو ملکوں میں قحط کی وجہ محض شورش ہے جس کے ذمہ دار لوگ خود ہیں۔
اگرچہ صومالیہ اور یمن میں خشک سالی کی وجہ سے لوگوں کو کئی مشکلات درپیش ہیں، تاہم اسٹل ہارٹ نے کہا کہ ان چاروں ملکوں میں خوراک کی کمی کی وجہ وہاں "طویل عرصے سے جاری شورش ہے۔"
جنوبی سوڈان میں تقریباً 10 لاکھ افراد کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور اس بحران کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ امدادی تنظیموں کو سلامتی کے خدشات کے سبب اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔