رسائی کے لنکس

آپریشن براس ٹیکس: پاکستان پر حملے کی تیاری سے بھارتی وزیر اعظم لا علم تھے


امریکہ کے معروف تھنک ٹینک ’سٹمسن سینٹر‘ کے شریک بانی اور سینئر محقق مائیکل کریپن کے مطابق پاکستان میں یہ خدشہ محسوس کیا جانے لگا کہ بھارت پاکستان کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہا ہے۔

باور کیا جاتا ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں ممالک 1986-87 میں خفیہ طور پر جوہری بم تیار کر چکے تھے۔ پاکستان جوہری صلاحیت میں اُس وقت بھارت سے آگے تھا۔ تاہم، بھارت نے عین اُس وقت رسک لیتے ہوئے ایک خطرناک حکمت عملی تیار کی اور آپریشن ’براس ٹیکس’ کے نام سے بڑے پیمانے پر پاکستان کی سرحد کے قریب راجستان میں فوجی مشقوں کا آغاز کر دیا۔

بھارتی فوج کی مغربی کمانڈ کے اُس وقت کے کمانڈر ان چیف لیفٹننٹ جنرل پریم ناتھ ہون نے اپنی کتاب The Untold Truth میں لکھا ہے کہ یہ محض فوجی مشقیں نہیں تھیں، بلکہ ان کا مقصد پاکستان کے خلاف مکمل جنگ کا آغاز کرنا تھا۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس کی منصوبہ بندی اُس وقت کے بھارتی آرمی چیف جنرل سندرجی اور دفاعی اُمور کے منسٹر آف سٹیٹ ارون سنگھ نے ذاتی مفاد کیلئے تیار کی تھی جس کیلئے اُس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کو قطعی طور پر لا علم رکھا گیا تھا۔

اپنی کتاب کے نویں باب میں تفصیل بتاتے ہوئے جنرل پریم ناتھ ہون لکھتے ہیں کہ آرمی چیف جنرل سندر جی کا مقصد جنگ جیت کر فیلڈ مارشل کا عہدہ حاصل کرنا تھا جبکہ وزیر دفاع ارون سنگھ وزیر اعظم بننے کے خواہشمند تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ حکمت عملی کے مطابق بھارتی فوج نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے بھارتی علاقے میں پاکستانی فوج کو چھوٹے پیمانے پر کارروائی پر اُکسا کر مکمل جنگ میں دھکیلنے کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ 15 جنوری 1987 کو آرمی ڈے کے موقع پر ہونے والے عشائیے کے دوران وزیر اعظم راجیو گاندھی نے اُن سے پوچھا کہ اُن کی مغربی کمان میں صورت حال کیسی ہے۔ جواب میں اُنہوں نے کہا، ’’جناب وزیر اعظم! مغربی محاذ پر صورت حال بہت اچھی ہے اور بہت جلد جنگی محاذ سے آگے جاکر میں آپ کو ایک طشتری میں سندھ اور دوسری طشتری میں لاہور پیش کروں گا۔‘‘

جنرل ہون کہتے ہیں کہ راجیو گاندھی طیش میں آ گئے اور فوراً پارٹی چھوڑ کر چلے گئے۔ وہ پاکستان سے جنگ نہیں چاہتے تھے۔ لہذا، 20 جنوری کو آرمی چیف جنرل سندرجی نے اُنہیں حکم دیا کہ فوجوں کی پیش قدمی فوری طور پر روک دی جائے۔

بھارت کی طرف سے آپریشن بریسٹیک کے رد عمل میں پاکستان نے بھی اپنی فوجوں کو متحرک کر دیا تھا۔ پاکستانی حکام بھی یہ ماننے کو تیار نہیں تھے کہ یہ محض فوجی مشقیں ہیں۔ بلکہ اسے پاکستان پر حملہ کرنے کی تیاری کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔

دفاعی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس صورت حال کے نتیجے میں دونوں ہمسایہ ممالک میں جوہری ہتھیار تیار کرنے کی رفتار تیز ہوگئی۔ سیاسی اُمور کیلئے امریکہ کے سابق معاون وزیر خارجہ کے اعلیٰ مشیر ایشلے ٹیلس کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں آپریشن براس ٹیکس ایک اہم سنگ میل ہے۔

وہ کہتے ہیں آپریشن براس ٹیکس بھارت کا آخری حربہ تھا جو جارحانہ سفارکاری کے تناظر میں ایک بڑی فوجی مشقوں کے طور پر استعمال کیا گیا جس کا مقصد پاکستان کو خبردار کرنا تھا کہ پاکستان کی طرف سے مبینہ طور پر دہشت گردی کی حمایت کرنے کے سلسلے میں اُس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ دوسری جانب پاکستانی نقطہ نظر سے بھارت کی طرف سے مستقبل میں فوجی انداز میں جارحانہ کارروائیوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے امکان کے پیش نظر پاکستان نے محسوس کیا اُس کے پاس جوہری ہتھیار تیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔ لہذا پاکستان نے بھی اپنے جوہری پروگرام کی رفتار تیز کر دی۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا جوہری پروگرام پہلے ہی سے آگے بڑھ رہا تھا لیکن آپریشن براس ٹیکس نے اسے منطقی انجام تک پہنچا دیا۔

اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر اسکاٹ سیگن کہتے ہیں کہ آپریشن براس ٹیکس کے دوران بھارتی آرمی چیف جنرل سندرجی نے پاکستان کی جوہری تنصیبات پر فضائی حملہ کرنے کیلئے وزیر اعظم راجیو گاندھی سے اجازت طلب کی۔ لیکن، راجیو گاندھی نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا۔ پروفیسر اسکاٹ سیگن کے مطابق آپریشن براس ٹیکس کے واقعات اشارہ کرتے ہیں کہ بعض اوقات بھارتی فوج نے سیاسی قیادت کو نظرانداز کرتے ہوئے معاملات اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش کی ہے۔ اگر وہ پاکستان پر حملہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو ملک کی سیاسی قیادت کو یہی جواز پیش کرتے کہ فوجی مشقیں قابو سے باہر ہو جانے کے باعث یہ حملہ کیا گیا۔ یوں بھارت کی تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں جب بھارت کی عسکری اور سیاسی قیادت میں ہم آہنگی کا فقدان تھا اور عسکری قیادت سیاسی قیادت کو اعتماد میں لئے بغیر فیصلے کرنے کی کوشش کرتی رہی۔

آپرین براس ٹیکس کے دوران جنوری 1987 میں ممتاز بھارتی صحافی کلدیپ نیر نے پاکستانی ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر قدیر خان کا انٹرویو کیا جس میں ڈاکٹر قدیر نے کہا کہ پاکستان جب چاہے ایٹم بم بنا سکتا ہے۔ یہ انٹرویو دو ماہ بعد مارچ 1987 میں لندن آبزرور میں چھپا۔ تھا لیکن، امریکی حکام کی نظر میں آنے سے پہلے ہی کلدیپ نیر نے بھارتی حکام کو اس کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ بھارتی حکام کیلئے یہ کوئی اچنبے کی بات نہیں تھی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی کئی برسوں سے جوہری پروگرام کو آگے بڑھا رہا ہے۔ لیکن امریکہ اور برطانیہ میں اس انکشاف سے تشویش کی لہر دوڑ گئی اور امریکہ نے فوری طور پر آپریشن براس ٹیکس سے پیدا ہونے والی کشیدگی کو ختم کرانے کیلئے ایک خصوصی ایلچی کو بھارت اور پاکستان روانہ کیا۔

اسی دوران، پاکستانی صدر جنرل ضیاء الحق مدعو کئے بغیر پاکستان اور بھارت کا کرکٹ میچ دیکھنے کیلئے بھارت پہنچ گئے جہاں بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد کشیدگی کی صورت حال نرم پڑ گئی اور دونوں ملکوں نے سیکٹری خارجہ کی سطح پر مزاکرات دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کر دیا۔

تاہم، یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے ایسوسی ایٹ وائس پریزیڈنٹ، معید یوسف اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ آپرین براس ٹیکس بھارت اور پاکستان کے جوہری پروگرام کی رفتار تیز کرنے کا باعث بنا۔ اُن کے خیال میں آپریشن براس ٹیکس کے نتیجے میں بھارت اور پاکستان نے شاید جوہری پروگرام کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا شروع کر دیا۔

تاہم، جوہری پروگرام کو تیزی سے آگے بڑھانے کا اصل محرک 1990 کا بحران تھا جسے جنوبی ایشیائی اُمور کے امریکی ماہر سٹیفن کوہن ’’کمپاؤنڈ‘‘ یعنی پیچیدہ بحران کا نام دیتے ہیں۔ یہی وہ سال تھا جب بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آزادی کی تحریک زور پکڑ گئی اور بھارتی پنجاب میں سکھ قوم پرستوں نے بھی آزاد خالصتان کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔ بھارت نے الزام لگایا کہ ان دونوں تحریکوں کو پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی حمایت حاصل تھی۔

امریکہ کے معروف تھنک ٹینک سٹمسن سینٹر کے شریک بانی اور سینئر محقق، مائیکل کریپن کے مطابق پاکستان میں یہ خدشہ محسوس کیا جانے لگا کہ بھارت پاکستان کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہا ہے۔ فیروز حسن خان نے اپنی کتاب Eating Grass: The Making of Pakistani Bomb میں لکھا ہے کہ اُس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ اُنہوں نے جان بوجھ کر امریکی حکام کو اشارہ دیا کہ پاکستان اپنے جوہری پروگرام کو ایٹم بم بنانے کی طرف لیجانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس کا مقصد بھارت کے ساتھ انتہائی کشیدہ صورت حال کو ختم کرنے کیلئے امریکہ کو کردار ادا کرنے پر مجبور کرنا تھا۔ دوسری جانب، امریکی حکام کو خود اُس کے خفیہ اداروں نے اطلاع دی کہ پاکستان ایٹم بم تیار کرنے کے قریب پہنچ گیا ہے۔ اسی وقت پاکستان میں امریکی سفیر رابرٹ اوکلے نے اطلاع دی کہ سرگودھا کی جانب کچھ ٹرک روانہ کئے گئے ہیں اور ممکنہ طور پر اُن میں جوہری بم بھی موجود ہیں۔ یوں امریکہ نے قومی سلامتی کے نائب مشیر رابرٹ گیٹس کو جنوبی ایشیا روانہ کیا تاکہ پاک بھارت کشیدگی کو ختم کیا جا سکے۔ چونکہ افغانستان کا بحران ابھی جاری تھا لہذا امریکہ یہ بالکل نہیں چاہتا تھا ایسے حالات میں پاکستان اور بھارت میں کوئی جنگ چھڑ جائے۔

سٹمسن سینٹر کے مائیکل کریپن کا کہنا ہے کہ پاک بھارت کشیدگی ختم کرنے کیلئے امریکہ نے دونوں ملکوں کی حکومتوں کی رضامندی کے ساتھ ایک اچھوتا انداز اپنایا جس میں دونوں ملکوں میں موجود امریکی سفارتخانوں کے دفاعی اتاشیوں نے اُن مقامات کا دورہ کیا جہاں مسلح افواج کو دونوں جانب حرکت میں لایا گیا تھا۔ ان دفاعی اتاشیوں نے اپنے دورے کے نتائج سے امریکی حکام کو آگاہ کیا جس کے بعد امریکی حکام نے پاکستان اور بھارت کو اس بارے میں آگاہ کیا۔ اس حکمت عملی سے امریکی حکومت نے افواہوں کا ازالہ کرتے ہوئے دونوں حکومتوں کو ایک دوسرے کی فوجی سرگرمیوں کے بارے میں حقیقی صورت حال سے آگاہ کیا۔ مائیکل کریپن کہتے ہیں کہ یہ حکمت عملی بہت مفید رہی اور اسے بعد میں رونما ہونے والے بحرانوں کے دوران بھی استعمال کیا گیا۔

تاہم، امریکہ کو اس موقع پر یقین ہو چکا تھا کہ پاکستان یا جوہری ہتھیار تیار کر چکا ہے یا پھر اُس کے بالکل قریب پہنچ گیا ہے۔ لہذا، اُس وقت کے امریکی صدر بش نے پریسلر ترمیم کے تحت پاکستان پر اقتصادی اور فوجی پابندیاں عائد کر دیں۔

XS
SM
MD
LG