پاکستان کے ایوان زیریں "قومی اسمبلی" میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا ہے کہ حزب مخالف پاناما لیکس کے معاملے پر حکومت سے تصادم نہیں چاہتی اور تحقیقاتی کمیشن کے ضابطہ کار پر بات چیت کے لیے آمادہ ہے۔
اپوزیشن نے رواں ہفتے دو روز تک جاری رہنے والے اجلاس کے بعد متفقہ طور پر ضابطہ کار ترتیب دیے تھے جس میں کمیشن سے وزیراعظم سے تحقیقات شروع کرتے ہوئے 90 روز میں اسے مکمل کرنے کا کہا گیا تھا۔
تاہم بدھ کو وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں حزب مخالف کے ضابطہ کار کو ناقابل عمل قرار دے دیا تھا لیکن ساتھ ہی اس پر اپوزیشن سے مشاورت کا عندیہ بھی دیا تھا۔
جمعرات کو قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ انھوں نے حزب مخالف کا وضع کردہ متفقہ ضابطہ کار وزیراعظم نواز شریف کو بھیج دیا ہے اور حکومت اگر اس پر مشاورت کرنا چاہتی ہے تو وہ اس سے انکار نہیں کریں گے۔
"مل کر ضابطہ کار بنا سکتے ہیں، حکومت ہمارے ساتھ بیٹھے گی تو یقیناً ہم مشاورت سے بات چیت سے گریز نہیں کریں گے، مذاکرات جمہوریت کی خوبصورتی ہوتے ہیں۔"
حکومتی عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ حزب مخالف اس معاملے پر صرف وزیراعظم کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے جس پر خورشید شاہ کا کہنا تھا۔
"وزیراعظم نے خود کہا ہے کہ آ بیل مجھے مار، دو مرتبہ قوم سے خطاب کیا ہے بارہا یہ کہا ہے کہ میرے بچے اس میں نہیں شامل ہیں اس لیے وزیراعظم اس میں آ رہے ہیں، وہ اس ملک کے وزیراعظم ہیں اس ملک کے آئین کی حفاظت کرنے والے ہیں"۔
گزشتہ ماہ پاناما پیپرز میں وزیراعظم نواز شریف کے بچوں سمیت دو سو کے لگ بھگ ایسے پاکستانیوں کے نام سامنے آئے تھے جن کے بیرون ملک اثاثے یا آف شور کمپنیاں ہیں جو کہ بظاہر ٹیکس سے بچنے کے لیے قائم کی گئی تھیں۔
وزیراعظم نے حزب مخالف کے مطالبے پر اس معاملے کی تحقیقات سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے تحت کمیشن سے کروانے کے لیے عدالت عظمیٰ کو خط لکھ دیا ہے لیکن اس کمیشن کے ضابطہ کار پر حکومت اور حزب مخالف کے مابین معاملہ جوں کا توں التوا کا شکار ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاناما پیپرز آئندہ ہفتے آف شور کمپنیوں کے مزید مالکان کے نام افشا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔