امریکی سی آئی اے کے سابق سربراہ جنرل ڈیوڈپیٹرس نے کہا ہے کہ پاکستانی انٹیلی جینس ایجنسیاں اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی سے لاعلم تھیں۔
تاہم سیکورٹی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ القاعدہ کے رہنما کی تلاش پاکستانی خفیہ اداروں کی اس ابتدائی اطلاع سے ہی ممکن ہوئی جو انہوں نے امریکیوں کی دی تھی۔
سی آئی اے کے سابق سربراہ ڈیوڈ پیٹریس نے نیویارک میں بھارتی قونصلیٹ کی ایک تقریب میں وزیر اعظم عمران کے اس دعوے پر کہ اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن پاکستان کے فراہم کردہ ’سراغ‘ سے ہی ممکن ہوا تھا، کہا کہ اس وقت سی آئی اے کو یقین تھا کہ پاکستانی خفیہ اداروں یا کسی اور کو اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
دوسری جانب اس وقت پاکستان کی فوج میں فرائض انجام دینے والے ایک ریٹائرڈ جنرل اعجاز اعوان کہتے ہیں کہ یہ درست ہے کہ پاکستانی اداروں کے پاس اسامہ بن لادن سے متعلق کوئی معلومات نہیں تھیں۔
جنرل اعجاز اعوان کا کہنا ہے کہ، ‘یقیناً پاکستان کی ملڑی انٹیلی جینس ہو یا آئی ایس آئی، ان میں سے کسی کو بھی آئیڈیا نہیں تھا کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں ہے۔ امریکن کہا کرتے تھے کہ وہ پاک افغان بارڈ ایریا کے پہاڑوں میں کہیں چھپا ہوا ہے۔ وہ بھی اسے تلاش کرتے رہے اور ہم بھی۔ لیکن کسی کو اس کا سراغ نہیں ملا‘۔
تاہم جنرل اعجاز اعوان، وزیر اعظم عمران خان کے اس موقف کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کا سراغ ان فون کالز کو پکڑنے سے ہی ممکن ہوا، جو اس کا ملازم مختلف شہروں سے عربی زبان میں کرتا تھا اور پاکستان نے یہ اطلاع فوری طور پر امریکہ کو فراہم کر دی تھی۔
جنرل اعجاز اعوان کے بقول، ’جو پہلے ٹیلی فون کال کا سراغ لگایا گیا تھا اس شخص کا، جو بعد میں اس کا پیغام رساں نکلا۔ یقیناً سب سے پہلے آئی ایس آئی نے کیا تھا۔ چونکہ ہمارا امریکہ سے انٹیلی جینس شیئرنگ کا معاہدہ تھا، اس لیے یہ معلومات فوری طور پر امریکہ کو فراہم کر دیں تھیں، جسے آگے بڑھاتے ہوئے وہ اسامہ بن لادن تک پہنچے تھے۔
لندن میں ایک تھنک ٹینک سے وابستہ سیکورٹی امور کے ماہر محمد توصیف کا بھی یہی کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن کی تلاش پاکستانی خفیہ اداروں کی دی گئی معلومات سے ہی ممکن ہوئی تھی۔
محمد توصیف کہتے ہیں کہ ’جنرل اطہر عباس نے سی این این کو اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ 2010 میں اسامہ بن لادن کے پیغام رساں شخص کی فون کال کا سراغ آئی ایس آئی نے لگایا تھا، اور اسے فوری طور پر امریکیوں کے ساتھ شیئر کیا۔ لیکن اس کے بعد آپریشن میں پاکستان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں خدشہ تھا کہ آپریشن ناکام نہ ہو جائے۔ لیکن اس حوالے سے ایبٹ آباد کمشن رپورٹ سے ساری باتوں کی وضاحت ہو سکتی تھی، لیکن یہ رپورٹ اب تک جاری نہیں کی گئی۔
کیا اسامہ بن لادن کے خلاف ایبیٹ آباد آپریشن میں پاکستان کو اعتماد میں نہ لینے کی وجہ آپریشن کے متاثر ہونے کا خدشہ تھا؟
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد آپریشن کی تفیصلات آئندہ دو برسوں میں سامنے آنے کی توقع ہے۔
محمد توصیف کہتے ہیں کہ، ’ 2021 تک انتظار کریں کیونکہ امریکی قانون کے مطابق دس سال بعد حساس دستاویزات جاری کی جا سکتی ہیں۔ اس وقت دونوں جانب خاموشی ہے، بلکہ بین الااقوامی سطح پر بھی خاموشی ہے۔ اگرچہ کوئی یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ پاکستان اسامہ کی ملک میں موجودگی سے لاعلم تھا، لیکن کسی نے بھی یہ ثبوت نہیں دیا کہ پاکستان اسامہ کی پاکستان میں موجودگی سے باخبر تھا۔
ایبٹ آباد آپریشن اور اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے واقعہ پر پاکستان اور امریکہ دونوں جانب سے وضاحتیں آنا ابھی باقی ہیں۔ اس سلسلے میں جنرل درانی کے اس بیان کی بھی کسی جانب سے تصدیق نہیں ہوئی جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اس وقت کے آرمی چیف کو اسامہ آپریشن کے متعلق معلومات تھیں۔
توقع ہے کہ امریکی قانون کے تحت جب دس سال کی مدت پوری ہونے کے بعد اس واقعہ سے متعلق حساس دستاویزات پبلک کی جائیں گی تو ایبیٹ آباد آپریشن کی تمام جزیات بھی منظر عام پر آ جائیں گی۔ اس کے لیے آپ کو 2021 تک انتظار کرنا ہو گا۔