پاکستان نے داخلی سلامتی کی نئی قومی پالیسی کی منظوری دے دی ہے جس میں ملک میں انتہاپسندی اور شدت پسندی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے جامع اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔
اس پالیسی کی منظوری وفاقی کابینہ نے حکومت کی مدت ختم ہونے کے آخری روز جمعرات کو دی جس میں شدت پسند گروپ داعش کو ملک کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے۔
میڈیا میں پالیسی سے متعلق سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق یہ پالیسی آئندہ پانچ برسوں کے لیے ہے جس میں سکیورٹی معاملات سے نمٹنے کے لیے انتظامی اقدامات، انتہا پسندی کے بیانیے کے تدارک اور سماجی و معاشی محرمیوں کو دور کرنے پر توجہ دی گئی ہے جو ملک کے لیے سیکورٹی مسائل کا باعث بنتے ہیں۔
اس پالیسی کا اعلان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب بین الاقوامی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس رواں ماہ پاکستان کو امریکہ کی درخواست پر ایسے ممالک کی فہرست میں شامل کرنے والی ہے جنہوں نےدہشت گردی کے لیے مالی وسائل کی روک تھام کے مؤثر اقدامات نہیں کیے ہیں۔
جمعرات کو منظور کی جانے والی پالیسی کے مطابق ریاست کے مختلف اداروں کی ذمہ داریوں کو ایک دوسرے سے مربوط کرنے کا کام انسدادِ دہشت گردی سے متعلق قومی ادارے 'نیکٹا' کا ہوگا۔
پالیسی کے تحت 'نیکٹا' میں دہشت گردی کا ایک قومی ڈیٹا بیس فائم کیا جائے گا جس کو پولیس، شہریوں کے کوائف کے منتظم قومی ادارے 'نادرا'، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)، اسٹیٹ بینک اور دیگر متعلقہ اداروں سے مربوط کیا جائے گا۔
پالیسی میں ملک کے لیگل سٹم میں بھی اصلاحات کی تجویز دی گئی ہے۔
اس کے علاوہ قانونِ شہادت یعنی گواہی سے متعلق قانون میں بھی ترمیم کی تجویز دی گئی ہے تاکہ کسی بھی گواہ کی شہادت کو ویڈیو لنک یا ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ریکار ڈ کیا جا سکے تاکہ گواہ کی شناخت کو پوشیدہ رکھا جا سکے۔
پالیسی میں پولیس کے قواعد و ضوابط میں ترمیم کرکے تمام مقدمات کی فارنزک شہادتوں کو جمع کرنا بھی لازمی قرار دینے کی سفارش کی گئی ہے۔
پالیسی میں کالعدم شدت پسند تنظیموں کی سرگرمیوں کو روکنے لیے موثر اقدامات تجویز کیے گئے ہیں جن میں ان پر چندہ جمع کرنے پر پابندی اور ان کے اثاثے ضبط کرنا شامل ہے۔
داخلی سلامتی کے نئی قومی پالیسی کے تحت جیلوں کی سکیورٹی میں بھی اضافہ کیا جائے گا اور دہشت گردی کے مقدمات کا سامنے کرنے والے افراد کو صرف انتہائی سخت سکیورٹی والی جیلوں میں ہی رکھا جائے گا۔ دہشت گردی کے مجرموں کو دیگر مجرموں سے الگ رکھا جائے گا تاکہ وہ دیگر ملزموں کو شدت پسندی کی طرف راغب نہ کر سکیں۔
سلامتی کے امور کے تجزیہ کار اور پاکستان کے سابق سیکریٹری داخلہ تسنیم نورانی نے کہا ہے کہ قومی سطح پر بنائی جانے والی کوئی بھی پالیسی ایک اچھے مقصد کے لیے بنائی جاتی ہے۔ تاہم ان کے بقول سب سے بڑا چیلنج اس پالیسی پر عمل کو یقینی بنانا ہوگا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انتہاپسندی اور انسدادِ دہشت گردی کے لیے وضع کردہ قومی لائحۂ عمل پر مؤثر عمل درآمد سے انہتاپسندی اور دہشت گردی کے چیلنج سے مؤثر طور پر نمٹا جا سکتا تھا۔
پاکستان کی ہمسایہ ممالک کی طرف سے پاکستان پر ان شدت پسندوں گروپوں کی خلاف موثر کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے تنقید کی جاتی رہی ہے جو دوسرے ملکوں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔
اگرچہ پاکستان اس تنقید کی مسترد کرتا رہا ہے لیکن داخلہ سلامتی کے نئی پالیسی میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ پاکستان امن و استحکام کے لیے عالمی برادری کے ساتھ مل کر کا م کرتا رہے گا اور غیر ریاستی عناصر کو ملک سے باہر حملے کرنے کے لیے ملک کی سرزمیں استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔