افغانستان میں اقوام متحدہ کی سفیر نے اپنے الوداعی پیغام میں خواتین کے حقوق، میڈیا کی آزادیاں اور وسیع تر سیاسی نمائندگی رکھنے والی حکومت کی تشکیل کی راہ مسدود کرنے والی طالبان کی سخت پالیسیوں پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے ایاز گل کے مطابق اقوام متحدہ کے معاون مشن (اناما) کی سربراہ ڈیبرا لیانز نے کہا کہ جب انہوں نے یہ ذمہ داریاں قبول کیں تو وہ اس بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔ لیکن اب وہ افغانستان چھوڑ کر جا رہی ہیں۔
مشن کی سبکدوش ہونے والی سربراہ دو سال قبل کابل پہنچی تھیں جب مغرب کی حمایت یافتہ حکومت اقتدار میں تھی اور طالبان کے ہلاکت خیز حملوں کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔
ڈیبرا لیان نے کہا کہ ان کا دل دسیوں لاکھوں افغان لڑکیوں کے لیے دکھ محسوس کرتا ہے جنہیں تعلیم حاصل کرنے کے ان کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ اور ایسی بہت سی افغان خواتین کا جو بہت باصلاحیت ہیں لیکن ان سے کہہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتیں معاشرے کی از سر نو تعمیر میں آزمانے کے بجائے گھر بیٹھ جائیں۔ ڈیبرا کے بقول افغانستان میں اگرچہ تنازع پہلے کی نسبت کم ہے لیکن خدشات پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئے ہیں۔
طالبان نے گزشتہ سال اگست میں امریکی قیادت والے اتحاد کے انخلا وقت افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا تھا اور ایک ایسی عبوری حکومت تشکیل دی تھی جس میں صرف مرد شامل تھے۔
مذہب پسند طالبان گروپ نے جواں سال لڑکیوں کی ثانوی سطح کی تعلیم معطل کر دی تھی اور خواتین ملازمین کو مخصوص شعبوں کے علاوہ حکومتی شعبوں میں کام سے روک دیا تھا
اقوام متحدہ کی سفیر نے کہا کہ ایک خاتون ہونے کی حیثیت سے افغان بہنوں کو اس حال میں چھوڑ کر جانا ان کے لیے بہت تکلیف دہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ جب ملک کی تعمیر نو میں ہر ایک کے لیے کردار ادا کرنے کی گنجائش موجود ہے، ملک کی نصف آبادی کو گھروں میں محدود کر دیا گیا ہے اور اپنا کردار ادا کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
ایمبیسیڈر ڈیبرا نے کہا کہ ایسا نظام جو خواتین، اقلیتوں اور باصلاحیت لوگوں کو باہر رکھتا ہے، پائیدار نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ افغانستان کے، ان کے الفاظ میں ’ ڈی فیکٹو‘ حکام کے ساتھ رابطے میں رہیں۔
اقوام متحدہ کے سفیر نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ عالمی ادارہ دسیوں لاکھوں افغان شہریوں کو تنہا نہیں چھوڑے گا خاص طور پر جب ملک کو کئی برسوں کی لڑائی اور خشک سالی جیسے حالات میں فوری مدد کی ضرورت ہے۔
دنیا کے کسی بھی ملک نے خواتین کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک اور دہشت گردی سے متعلق خدشات کے سبب طالبان کو سفارتی طور پر قبول نہیں کیا ہے۔
طالبان نے خواتین سے متعلق اپنے اقدام واپس لینے کے بین الاقوامی مطالبوں کو متعدد بار مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ افغانستان کی ثقافت اور اسلامی روایات کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ وہ اپنی حکومت کا دفاع اسے مکمل نمائندہ حکومت کہتے ہوئے کرتے ہیں۔