نوے کی دہائی کے آغاز پر دی نیوز کے ساتھ متعدد نوجوان صحافیوں نے کریئر شروع کیا جن میں سے کئی نے بعد میں بہت نام کمایا۔ اویس توحید ان میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے اے ایف پی اور بی بی سی جیسے غیر ملکی خبر رساں اداروں میں کام کیا، گارڈین اور وال اسٹریٹ جرنل کے لیے خدمات انجام دیں اور پاکستان کے کئی نیوز چینلوں کے سربراہ رہے۔
میں نے اویس توحید سے پوچھا کہ آپ نے مقامی اور غیر ملکی، دونوں طرح کے میڈیا کے ساتھ کام کیا ہے۔ پاکستان میں میڈیا کو کس طرح کی سنسرشپ کا سامنا ہے؟ اور سنسرشپ ہے بھی یا نہیں؟
اویس توحید نے کہا کہ بالکل، پاکستان میں میڈیا کو سنسرشپ کا سامنا ہے۔ ریاستی عناصر کی جانب سے بھی اور غیر ریاستی عنصر کی جانب سے بھی۔ نائن الیون کے بعد سے پاکستان کے صحافی دو دھاری تلوار پر چل رہے ہیں۔ ہمارے ایک سو پندرہ ساتھی شہید ہو چکے ہیں۔ پہلے غیر ریاستی عناصر کی جانب سے دھمکیاں آتی تھیں اور وہ غریب صحافیوں کو قتل کردیتے تھے۔
کئی سال بعد ایک اور سلسلہ شروع ہوا کہ صحافیوں کے رشتے داروں کو ہراساں کرنے کی کوششیں ہوئیں۔ گزشتہ تین چار سال میں کچھ مزید تبدیلی آئی۔ صحافیوں کو قتل تو نہیں کیا جارہا تھا لیکن ہراساں کرنے کی کوششیں جاری رہیں۔ دھمکیوں والے فون آتے ہیں۔ خاص طور پر بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے صحافیوں کو کالز آتی تھیں کہ کس طرح کوریج کی جائے۔
اب بات سیلف سنسرشپ تک آن پہنچی ہے۔ بہت سے صحافیوں اور ایڈیٹرز نے اپنے تئیں یہ فیصلہ کیا کہ کچھ ریڈ لائنز ہیں اور انھیں کراس نہ کیا جائے۔ بعض موضوعات کے بارے میں آپ کا خیال ہوتا ہے کہ ان پر بات کرنے سے اسٹیک ہولڈرز، سیاسی جماعتوں یا کالعدم تنظیموں سے کہیں نہ کہیں آپ کا ٹکراؤ ہو سکتا ہے۔ اگر آپ انھیں خود ریڈلائنز قرار دے بیٹھیں تو اس کا مطلب ہوا کہ آپ بند گلی میں پہنچ گئے ہیں۔ آپ ایک ایسے دروازے پر پہنچ گئے ہیں جس سے آگے آپ جانا نہیں چاہ رہے۔ آپ اس کھڑکی تک پہنچ گئے ہیں جس کے شیشے کے پار آپ دیکھنا نہیں چاہ رہے۔ جب آپ ریڈ لائن کراس نہیں کرتے اور سیف زون کے اندر رہنا چاہتے ہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ مزاحمت کا سفر ختم ہوا۔
مزاحمت ماضی میں پاکستانی صحافت کا خاصا ہوا کرتی تھی۔ ضیا الحق کا دور یاد کیجیے، نوے کا عشرہ دیکھ لیجیے، ہمارے ساتھیوں نے جیلیں کاٹیں، کوڑے کھائے لیکن مزاحمت ترک نہیں کی۔ مشرف دور میں ہم نے خود عدلیہ کی بحالی کی تحریک میں گرفتاریاں پیش کیں۔ لیکن اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ ویسی مزاحمتی تحریک موجود نہیں۔ ایک طرف ہراساں کرنے اور دھمکانے کا منظم طریقہ ہے اور دوسری جانب سیلف سنسرشپ ہے۔
میں نے دریافت کیا کہ صحافی کیوں ایڈیٹرز یا مالکان کی سیلف سنسرشپ کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے؟
اویس توحید نے کہا کہ میڈیا کے اندر بھی کئی طرح کے مسائل ہیں۔ ہمارے میڈیا اداروں میں پروفیشنل ازم نہیں ہے بلکہ زیادہ تر سیٹھ کلچر ہے۔ ایڈیٹر کے عہدے کا تقدس مجروح ہو چکا ہے کیونکہ مالکان کی بہت زیادہ مداخلت ہے۔ دنیا بھر میں ایڈیٹرز کی موثر تنظیمیں ہیں۔ بھارت میں ہے۔ میکسیکو میں مافیا صحافیوں کو ہراساں کر رہی تھی۔ اٹلی میں بھی یہی حال تھا۔ پھر وہاں ایڈیٹرز کی تحریک چلی۔ سری لنکا میں بھی ایڈیٹرز نے تحریک چلانے کی کوشش کی۔ ہمارے ہاں ایڈیٹرز کی تنظیم کی کمی ہے۔
ایک تنظیم ہے تو اس میں بھی مالکان بیٹھے ہیں یا ان کے نمائندے ہوتے ہیں۔ وہ ریاستی اداروں کے پاس جاتے ہیں تو ان کی ساجھے داری شروع ہو جاتی ہے۔ صحافی جو پہلے ہی تقسیم ہیں، وہ سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں جبکہ مالکان آزادی صحافت کے نام پر سازباز کرتے ہیں۔
میرے خیال میں پاکستان کی صحافت کے ماڈل میں بہت مسائل ہیں کیونکہ یہ ماڈل سرکاری اشتہارات پر انحصار کرتا ہے۔ اس کی وجہ سے میڈیا حکومت کا یرغمال جاتا ہے۔ باقی آمدن بھی پرائیویٹ اشتہاروں سے ملتی ہے اس لیے کارپوریٹ سیکٹر بھی ڈکٹیٹ کرتا ہے۔ سبسکرپشن سے آمدنی نہیں ہوتی جیسے برطانیہ یا امریکہ میں ہے کہ جہاں چینل دیکھنے کے لیے پیسے دینے پڑتے ہیں۔
میں نے سوال کیا کہ میڈیا انڈسٹری میں بھی طبقاتی نظام پیدا ہو گیا ہے۔ ایک ہزاروں کی تنخواہ والے ہیں اور دوسرے لاکھوں والے۔ کیا اس سے بھی میڈیا کے مسائل بڑھے ہیں؟ کیا یہی معاشی بحران کا سبب ہے؟
اویس توحید نے کہا کہ ہر شخص زیادہ سے زیادہ معاوضہ چاہتا ہے۔ ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ دنیا کی تمام آسائشیں اسے ملیں۔ 1980 کی دہائی تک پاکستان میں صحافت جہاد کی طرح تھی، مشن کے طور پر ہوتی تھی۔ نوے کی دہائی میں ہم نے اسے تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا۔ دی نیوز کا آغاز ہوا تو صحافیوں کو زیادہ تنخواہیں ملیں۔ اس کی وجہ سے ڈان میں بھی معاوضے بڑھائے گئے۔ کنٹریکٹ کے بجائے مستقل ملازمتیں دی گئیں۔
اس کے بعد بڑا جمپ 2002 میں آیا جب پرائیویٹ ٹی وی چینل آئے۔ اخبار میں پسے ہوئے لوگ دس دس ہزار پر کام کرتے تھے، انھیں پچاس پچاس ہزار روپے ملنے لگے۔ نیوز چینلوں میں مسابقت ہوئی تو کارکنوں کو دوگنا تین گنا تنخواہوں پر پیشکشیں ہونے لگیں۔ میں کئی چینلوں کی سربراہی کر چکا ہوں۔ ایک بار میں نے جس اینکر کو چالیس ہزار روپے پر ملازم رکھا، کچھ عرصے بعد اس کی سولہ لاکھ روپے کی سیلری سلپ بھی سائن کی۔ واقعی اسکرین پر آنے والوں اور دوسرے ورکنگ جرنلسٹس کے درمیان بڑا فرق ہو گیا ہے۔
جہاں تک یہ بات ہے کہ بگاڑ کیسے آیا، میں سمجھتا ہوں کہ ایسا مشرف دور کے بعد ہوا۔ میڈیا نے ریاست کے کھیل میں اسٹیک ہولڈر کے طور پر گھسنے کی کوشش کی۔ کچھ مالکان اور اینکرز ایسے تھے جن کا صحافت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ اس کام میں پڑ گئے کہ کون کس ادارے کا سربراہ ہو گا۔ میڈیا میں خرابی ہوئی اور اس وجہ سے دھڑے بندی بھی ہوئی۔
میں نے پوچھا کہ کیا میڈیا کا مالی بحران اس نہج پر جا رہا ہے کہ کچھ ادارے بند ہوجائیں گے؟ کیونکہ تنخواہیں کئی کئی ماہ تاخیر کا شکار ہیں اور آج کل ملازمین بھی نکالے جارہے ہیں۔
اویس توحید نے کہا کہ جتنے بھی صحافیوں کی نوکریاں جا رہی ہیں، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم معاشی بحران میں مالکان کے ساتھ ہیں لیکن جب وہ مالی منصوبہ بندی کرتے ہیں تو ہمیں اعتماد میں نہیں لیتے۔ انھیں سینئر صحافیوں کے ساتھ اپنے بزنس ماڈل پر گفتگو کرنی چاہیے اور یہ بھی بتانا چاہیے ان کے ساتھ دوسرے کاروبار کیا ہیں۔ کسی کا رئیل اسٹیٹ کا کام ہے، کسی کی فیکٹریاں ہیں، کسی کے اسکول کالج ہیں۔ ٹی وی چینل مالکان کو اپنا کچاچٹھا سامنے رکھنا چاہیے تاکہ پتا چلے کہ بحران صرف میڈیا سے متعلق ہے یا دوسرے کاروباروں میں بھی مندا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میڈیا تغیرات سے گزر رہا ہے لیکن اس کی آواز بند کرنے کی کوشش کرنا سماج کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہو گا۔
میں نے بتایا کہ بعض سینئر صحافیوں کا خیال ہے کہ بہت سے نئے نیوز چینلوں کی آمد کی حوصلہ افزائی اس لیے کی جا رہی ہے تاکہ ان کے شور میں سنجیدہ میڈیا گروپس کی آواز دب جائے۔ کیا آپ اس بات سے متفق ہیں؟
اویس توحید ہنس پڑے۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے کالج میں رشید احمد صدیقی کا مضمون پڑھا تھا جو الیکشن کے بارے میں تھا۔ اس میں یہی کہا گیا تھا کہ جو زیادہ زور سے بولے گا، وہی حق پر ہے۔ بہت سے اینکرز ٹی وی پر زور سے بولتے ہیں، شاید یہی سمجھتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں۔
ہمارے ٹی وی چینلوں کی اسکرین پر وہ حضرات بھی آ گئے ہیں جن کا جونرا ٹی وی اور کرنٹ افیئرز نہیں ہے۔ امریکہ اور برطانیہ میں ٹیلی وینجلسٹ کے لیے الگ چینل ہیں، الگ فورم ہے کہ وہاں وہ وعظ کرتے رہیں۔ یہاں پر وعظ کرنے والے مین اسٹریم میڈیا میں آ گئے ہیں۔ میں نے ایک کانفرنس میں کہا کہ صحافت کا آنگن ٹیڑھا ہو گیا ہے کیونکہ ہم ٹی وی پر آنے والے ڈاکٹر حضرات کی جراحت کے سبب مشکل میں پڑ گئے ہیں۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ مدھم بولنے والے، کونٹینٹ پر زور دینے والے اور توازن برقرار رکھنے والے کی آواز دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن شور شرابے سے کچھ عرصے کے لیے تو آواز دبائی جاسکتی ہے، ہمیشہ کے لیے نہیں۔
نوٹ: وائس آف امریکہ اردو نے پاکستان میں پریس فریڈم کی صورت حال کے بارے میں انٹرویوز کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس میں صحافیوں، میڈیا اداروں کے مالکان اور میڈیا کے بارے میں سرکاری پالیسی سے متعلق عہدیداروں سے گفتگو شامل کی جاتی رہے گی۔ اوپر دیا گیا انٹرویو اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔