اسلام آباد —
پاکستان نے کہا کہ افغانستان کو اگر شکایات ہیں تو ان کے لیے میڈیا پر بیان دینے کے بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے، کیوں کہ یہی مسائل کے حل کا مروجہ طریقہ ہے۔
دفتر خارجہ کے ترجمان معظم احمد خان نے جمعرات کو ہفتہ وار نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ہی ملک افغانستان میں امن و استحکام کے لیے کوشاں ہیں کیوں کہ انھیں دہشت گردی کے مشترکہ خطرات کا سامنا ہے۔ اُن کے الفاظ میں: ’’دوطرفہ تعلقات کے فروغ کے لیے میڈیا کی بجائے، پُرامن بات چیت کا راستہ اپنانے کی ضرورت ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ ایسے تعلقات کو فروغ دینے کا خواہاں ہے جو دو ہمسایہ ملکوں کے درمیان ہونے چاہیئں اور جن کی بنیاد باہمی احترام اور مفاد پر مبنی ہو۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ مولوی فضل اللہ سمیت مفرور پاکستانی طالبان کمانڈروں کی افغانستان میں موجودگی کے بارے میں شواہد افغان حکومت اور بین الاقوامی افواج کو پہلے ہی فراہم کیے جا چکے ہیں تاہم اس پر تاحال کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔
اُدھر کابل میں افغان حکام نے جمعرات کو تصدیق کی ہے کہ خطے سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستانی سیاسی و مذہبی رہنماؤں کے نام صدر حامد کرزئی نے جو خطوط لکھے تھے ان کے جوابات موصول ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
ایک صدارتی بیان کے مطابق صدر آصف علی زرداری اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی طرف سے بیجھے گئے جوابی مراسلوں میں دونوں پاکستانی رہنماؤں نے دہشت گردی کے خلاف تعاون کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
افغان حکام کے بقول صدر زرداری نے دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے اس امید اور توقع کا اظہار کیا ہے کہ ان شدت پسند عناصر کو سرحد کے دونوں جانب پناہ نہیں دی جائے گی۔
عمران خان نے اپنے خط میں افغان صدر کو یقین دہانی کرائی کہ ان کی جماعت اور وہ خود افغانستان میں امن و مفاہمت کی ہر اُس کوشش کی حمایت کرتے ہیں جس میں تمام افغانوں کو ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں شامل کیا جائے۔
دفتر خارجہ کے ترجمان معظم احمد خان نے جمعرات کو ہفتہ وار نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ہی ملک افغانستان میں امن و استحکام کے لیے کوشاں ہیں کیوں کہ انھیں دہشت گردی کے مشترکہ خطرات کا سامنا ہے۔ اُن کے الفاظ میں: ’’دوطرفہ تعلقات کے فروغ کے لیے میڈیا کی بجائے، پُرامن بات چیت کا راستہ اپنانے کی ضرورت ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ ایسے تعلقات کو فروغ دینے کا خواہاں ہے جو دو ہمسایہ ملکوں کے درمیان ہونے چاہیئں اور جن کی بنیاد باہمی احترام اور مفاد پر مبنی ہو۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ مولوی فضل اللہ سمیت مفرور پاکستانی طالبان کمانڈروں کی افغانستان میں موجودگی کے بارے میں شواہد افغان حکومت اور بین الاقوامی افواج کو پہلے ہی فراہم کیے جا چکے ہیں تاہم اس پر تاحال کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔
اُدھر کابل میں افغان حکام نے جمعرات کو تصدیق کی ہے کہ خطے سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستانی سیاسی و مذہبی رہنماؤں کے نام صدر حامد کرزئی نے جو خطوط لکھے تھے ان کے جوابات موصول ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
ایک صدارتی بیان کے مطابق صدر آصف علی زرداری اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی طرف سے بیجھے گئے جوابی مراسلوں میں دونوں پاکستانی رہنماؤں نے دہشت گردی کے خلاف تعاون کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
افغان حکام کے بقول صدر زرداری نے دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے اس امید اور توقع کا اظہار کیا ہے کہ ان شدت پسند عناصر کو سرحد کے دونوں جانب پناہ نہیں دی جائے گی۔
عمران خان نے اپنے خط میں افغان صدر کو یقین دہانی کرائی کہ ان کی جماعت اور وہ خود افغانستان میں امن و مفاہمت کی ہر اُس کوشش کی حمایت کرتے ہیں جس میں تمام افغانوں کو ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں شامل کیا جائے۔