اسلام آباد —
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے پیر کو کابل میں عسکری کمانڈروں کے سہ فریقی اجلاس میں شرکت کی جس میں افغانستان اور وہاں تعینات بین الاقوامی اتحادی افواج کے کمانڈر بھی موجود تھے۔
آرمی چیف کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جنرل راحیل شریف کا کابل کا یہ پہلا دورہ ہے۔
جنرل راحیل شریف نے سہ فریقی اجلاس میں افغانستان کی فوج کے سربراہ جنرل شیر محمد کریمی، اور افغانستان میں تعینات بین الاقوامی اتحادی افواج کے کمانڈر جنرل جوزف ڈینفورڈ سے پاک افغان سرحد کی نگرانی موثر بنانے اور سلامتی سے متعلق اُمور پر تبادلہ خیال کیا۔
یہ سہ فریقی اجلاس ایسے وقت ہوا جب حالیہ ہفتوں میں پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے پر سرحد پار سے گولہ باری اور راکٹ حملوں کا الزام لگاتے آئے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ایک ایسی جھڑپ میں اطلاعات کے مطابق ایک افغان فوجی ہلاک ہو گیا تھا۔ اس لیے اس اہم ملاقات میں سرحدی کشیدگی کم کرنے پر بھی غور کیا گیا۔
تجزیہ کار رسول بخش رئیس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس سہ فریقی اجلاس کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کیوں کہ رواں سال کے اواخر میں نیٹو افواج افغانستان سے انخلا کی تیاریاں کر رہی ہیں۔
’’پاکستان اور دیگر ممالک کے لیے یہ مسئلہ ہے کہ (غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں حملوں کی شدت میں اضافہ ہو سکتا ہے اور اس کو کیسے روکا جائے اور (اس کے لیے) افغانستان اور پاکستان کو کیا اقدام اٹھانے چاہیئں افغانستان اور اس کے اتحادی جنہوں نے 13 سال وہاں جنگ لڑی ہے وہ کیا مدد کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔ تو چیف آف آرمی سٹاف کا دورہ نہایت اہم ہے (کہ وہ) پاکستان کا موقف سامنے رکھیں اور جو ہم نے تیاری کر رکھی ہے کہ ہم ان کی کیا مدد کر سکتے ہیں۔‘‘
اُدھر افغانستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان احمد ثاقب نے ہفتہ وار نیوز کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا کہ سہ فریقی اجلاس میں پاک افغان سرحد پر پیش آنے والے واقعات پر بات چیت کی گئی اور اس مسئلے کے طویل المدتی حل کی تجاویز پر غور کیا گیا۔
گزشتہ ہفتہ پاکستان کی جانب سے یہ بھی الزام عائد کیا کہ افغانستان کی فورسز کی جانب سے پاکستانی سرحد چوکیوں پر گولے داغے گئے جن کا موثر جواب دیا گیا لیکن اس میں کسی طرح کا جانی نقصان نہیں ہوا۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان لگ بھگ 2600 کلومیٹر طویل سرحد کے دشوار گزار راستوں کو شدت پسند ایک سے دوسرے ملک میں داخل ہونے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں اور اس غیر قانونی آمد و رفت کو پاکستان نے اپنی جانب کئی چوکیاں بھی قائم کر رکھی ہیں۔
پاکستانی حکام افغان عہدیداروں سے یہ بھی مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ وہ بھی اپنی جانب ایسی ہی قائم چوکیوں کی تعداد کو مزید بڑھائے تاکہ جنگجوؤں کی آمد و رفت کو روکا جا سکے۔
افغانستان میں سلامتی کی صورت حال خاص طور پر سرحد کی نگرانی سے متعلق اُمور حالیہ ہفتوں میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور افغانستان میں تعینات بین الاقوامی اتحادی افواج کے کمانڈر کے درمیان ملاقات میں بھی زیر بحث آئے۔
آرمی چیف کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جنرل راحیل شریف کا کابل کا یہ پہلا دورہ ہے۔
جنرل راحیل شریف نے سہ فریقی اجلاس میں افغانستان کی فوج کے سربراہ جنرل شیر محمد کریمی، اور افغانستان میں تعینات بین الاقوامی اتحادی افواج کے کمانڈر جنرل جوزف ڈینفورڈ سے پاک افغان سرحد کی نگرانی موثر بنانے اور سلامتی سے متعلق اُمور پر تبادلہ خیال کیا۔
یہ سہ فریقی اجلاس ایسے وقت ہوا جب حالیہ ہفتوں میں پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے پر سرحد پار سے گولہ باری اور راکٹ حملوں کا الزام لگاتے آئے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ایک ایسی جھڑپ میں اطلاعات کے مطابق ایک افغان فوجی ہلاک ہو گیا تھا۔ اس لیے اس اہم ملاقات میں سرحدی کشیدگی کم کرنے پر بھی غور کیا گیا۔
تجزیہ کار رسول بخش رئیس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس سہ فریقی اجلاس کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کیوں کہ رواں سال کے اواخر میں نیٹو افواج افغانستان سے انخلا کی تیاریاں کر رہی ہیں۔
’’پاکستان اور دیگر ممالک کے لیے یہ مسئلہ ہے کہ (غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں حملوں کی شدت میں اضافہ ہو سکتا ہے اور اس کو کیسے روکا جائے اور (اس کے لیے) افغانستان اور پاکستان کو کیا اقدام اٹھانے چاہیئں افغانستان اور اس کے اتحادی جنہوں نے 13 سال وہاں جنگ لڑی ہے وہ کیا مدد کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔ تو چیف آف آرمی سٹاف کا دورہ نہایت اہم ہے (کہ وہ) پاکستان کا موقف سامنے رکھیں اور جو ہم نے تیاری کر رکھی ہے کہ ہم ان کی کیا مدد کر سکتے ہیں۔‘‘
اُدھر افغانستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان احمد ثاقب نے ہفتہ وار نیوز کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا کہ سہ فریقی اجلاس میں پاک افغان سرحد پر پیش آنے والے واقعات پر بات چیت کی گئی اور اس مسئلے کے طویل المدتی حل کی تجاویز پر غور کیا گیا۔
گزشتہ ہفتہ پاکستان کی جانب سے یہ بھی الزام عائد کیا کہ افغانستان کی فورسز کی جانب سے پاکستانی سرحد چوکیوں پر گولے داغے گئے جن کا موثر جواب دیا گیا لیکن اس میں کسی طرح کا جانی نقصان نہیں ہوا۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان لگ بھگ 2600 کلومیٹر طویل سرحد کے دشوار گزار راستوں کو شدت پسند ایک سے دوسرے ملک میں داخل ہونے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں اور اس غیر قانونی آمد و رفت کو پاکستان نے اپنی جانب کئی چوکیاں بھی قائم کر رکھی ہیں۔
پاکستانی حکام افغان عہدیداروں سے یہ بھی مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ وہ بھی اپنی جانب ایسی ہی قائم چوکیوں کی تعداد کو مزید بڑھائے تاکہ جنگجوؤں کی آمد و رفت کو روکا جا سکے۔
افغانستان میں سلامتی کی صورت حال خاص طور پر سرحد کی نگرانی سے متعلق اُمور حالیہ ہفتوں میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور افغانستان میں تعینات بین الاقوامی اتحادی افواج کے کمانڈر کے درمیان ملاقات میں بھی زیر بحث آئے۔