پاکستان نے افغانستان میں جاری امن و مصالحت کے عمل میں ہر ممکن تعاون کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
افغانستان کی اعلٰی امن کونسل کے پانچ رکنی وفد نے پاکستان کے وزیرِ اعظم نواز شریف سے جمعرات کو اسلام آباد میں ملاقات کی، جس میں اعلٰی سفارت کاروں کے علاوہ وفاقی وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان بھی شریک تھے۔
سرکاری بیان کے مطابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے افغان وفد پر واضح کیا کہ پاکستان نے ہمیشہ ’’پُر امن، مستحکم اور متحد‘‘ افغانستان کی حمایت کی ہے۔
’’وزیرِ اعظم نے کہا کہ افغان حکومت کی سر پرستی میں جاری مصالحتی عمل میں پاکستان’’مثبت اور تعمیری‘‘ کردار ادا کر رہا ہے‘‘ اور اس عمل کو مزید آگے بڑھانے کے لیے پاکستان ہر ممکن تعاون کی فراہمی جاری رکھے گا۔
اعلٰی امن کونسل کے سربراہ صلاح الدین ربانی کی قیادت میں یہاں آئے ہوئے وفد نے پاکستان کی کوششوں پر اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ افغان عوام پاکستانی وزیرِ اعظم کے دورہِ افغانستان کے منتظر ہیں، جس سے اُن کے بقول ’’امن و مصالحت کے عمل میں تیزی آئے گی‘‘۔
پاکستان کی جانب سے ستمبر میں رہا کیے گئے افغان طالبان کے سابق نائب امیر ملا عبد الغنی برادر سے امن کونسل کے وفد کی ملاقات بھی متوقع ہے، مگر اس بارے میں سرکاری سطح پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔
پاکستان، افغانستان اور برطانیہ کے گزشتہ ماہ لندن میں سہ فریقی اجلاس کے بعد افغان حکام نے کہا تھا کہ اُن کے ملک کا ایک وفد مصالحت کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے جلد پاکستان میں ملا عبد الغنی برادر سے ملاقات کرے گا۔
افغان امن کونسل کی مشاورت سے پاکستان ملا عبد الغنی برادر سمیت 34 طالبان قیدیوں کو رہا کر چکا ہے۔ حکام کے مطابق ملا عبد الغنی برادر رہائی کے بعد پاکستان میں ہی ہیں اور وہ جب چاہیں اور جس سے چاہیں مل سکتے ہیں۔
آئندہ برس کے اختتام تک امریکی اور دیگر بین الاقوامی لڑاکا افواج کے افغانستان سے انخلاء اور اس کے بعد کی صورت حال کے تناظر میں پاکستان کے کردار کو عالمی سطح پر انتہائی اہم تصور کیا جا رہا ہے۔
امریکہ اور پاکستان کے مابین کثیر الجہتی اسٹریٹیجک ڈائیلاگ کے تحت قائم شدہ دفاعی اُمور سے متعلق مشاورتی گروپ کے جمعرات سے واشنگٹن میں شروع ہو رہے دو روزہ اجلاس میں دوطرفہ تعاون کے علاوہ علاقائی صورت حال بھی زیرِ بحث آئے گی۔
پاکستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق پاکستان سمجھتا ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے موقف کو بہتر انداز میں سمجھ رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ کو افغانستان سے متعلق پاکستان کے خدشات کا پہلے سے زیادہ ادراک ہے۔
دریں اثنا سلامتی، اسٹریٹیجک استحکام اور جوہری ٹیکنالوجی کے عدم پھیلاؤ سے متعلق پاک امریکہ ورکنگ گروپ کا اجلاس جمعرات کو اسلام آباد میں ہوا۔
وزارتِ خارجہ کے بیان کے مطابق اجلاس میں جن اہم اُمور پر تبادلہ خیال کیا گیا ان میں جوہری سلامتی سے متعلق اقدامات میں اضافہ اور توانائی کے اس ذریعے کا پُرامن استعمال شامل تھے۔
دونوں ممالک کے حکام نے کیمیائی و حیتیاتی ہتھیاروں اور برآمدات کی نگرانی سے متعلق بین الاقوامی قوانین کے علاوہ علاقائی سلامتی و استحکام پر بھی غور کیا۔
افغانستان کی اعلٰی امن کونسل کے پانچ رکنی وفد نے پاکستان کے وزیرِ اعظم نواز شریف سے جمعرات کو اسلام آباد میں ملاقات کی، جس میں اعلٰی سفارت کاروں کے علاوہ وفاقی وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان بھی شریک تھے۔
سرکاری بیان کے مطابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے افغان وفد پر واضح کیا کہ پاکستان نے ہمیشہ ’’پُر امن، مستحکم اور متحد‘‘ افغانستان کی حمایت کی ہے۔
’’وزیرِ اعظم نے کہا کہ افغان حکومت کی سر پرستی میں جاری مصالحتی عمل میں پاکستان’’مثبت اور تعمیری‘‘ کردار ادا کر رہا ہے‘‘ اور اس عمل کو مزید آگے بڑھانے کے لیے پاکستان ہر ممکن تعاون کی فراہمی جاری رکھے گا۔
اعلٰی امن کونسل کے سربراہ صلاح الدین ربانی کی قیادت میں یہاں آئے ہوئے وفد نے پاکستان کی کوششوں پر اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ افغان عوام پاکستانی وزیرِ اعظم کے دورہِ افغانستان کے منتظر ہیں، جس سے اُن کے بقول ’’امن و مصالحت کے عمل میں تیزی آئے گی‘‘۔
پاکستان کی جانب سے ستمبر میں رہا کیے گئے افغان طالبان کے سابق نائب امیر ملا عبد الغنی برادر سے امن کونسل کے وفد کی ملاقات بھی متوقع ہے، مگر اس بارے میں سرکاری سطح پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔
پاکستان، افغانستان اور برطانیہ کے گزشتہ ماہ لندن میں سہ فریقی اجلاس کے بعد افغان حکام نے کہا تھا کہ اُن کے ملک کا ایک وفد مصالحت کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے جلد پاکستان میں ملا عبد الغنی برادر سے ملاقات کرے گا۔
افغان امن کونسل کی مشاورت سے پاکستان ملا عبد الغنی برادر سمیت 34 طالبان قیدیوں کو رہا کر چکا ہے۔ حکام کے مطابق ملا عبد الغنی برادر رہائی کے بعد پاکستان میں ہی ہیں اور وہ جب چاہیں اور جس سے چاہیں مل سکتے ہیں۔
آئندہ برس کے اختتام تک امریکی اور دیگر بین الاقوامی لڑاکا افواج کے افغانستان سے انخلاء اور اس کے بعد کی صورت حال کے تناظر میں پاکستان کے کردار کو عالمی سطح پر انتہائی اہم تصور کیا جا رہا ہے۔
امریکہ اور پاکستان کے مابین کثیر الجہتی اسٹریٹیجک ڈائیلاگ کے تحت قائم شدہ دفاعی اُمور سے متعلق مشاورتی گروپ کے جمعرات سے واشنگٹن میں شروع ہو رہے دو روزہ اجلاس میں دوطرفہ تعاون کے علاوہ علاقائی صورت حال بھی زیرِ بحث آئے گی۔
پاکستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق پاکستان سمجھتا ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے موقف کو بہتر انداز میں سمجھ رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ کو افغانستان سے متعلق پاکستان کے خدشات کا پہلے سے زیادہ ادراک ہے۔
دریں اثنا سلامتی، اسٹریٹیجک استحکام اور جوہری ٹیکنالوجی کے عدم پھیلاؤ سے متعلق پاک امریکہ ورکنگ گروپ کا اجلاس جمعرات کو اسلام آباد میں ہوا۔
وزارتِ خارجہ کے بیان کے مطابق اجلاس میں جن اہم اُمور پر تبادلہ خیال کیا گیا ان میں جوہری سلامتی سے متعلق اقدامات میں اضافہ اور توانائی کے اس ذریعے کا پُرامن استعمال شامل تھے۔
دونوں ممالک کے حکام نے کیمیائی و حیتیاتی ہتھیاروں اور برآمدات کی نگرانی سے متعلق بین الاقوامی قوانین کے علاوہ علاقائی سلامتی و استحکام پر بھی غور کیا۔