پاکستان میں گزشتہ چند روز کے دوران تواتر سے دہشت گرد حملوں کے بعد ملک میں امن و امان کی صورت حال کے بارے میں ایک مرتبہ پھر خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔
رواں ہفتے پیر کو سب سے مہلک خودکش حملہ لاہور میں پنجاب اسمبلی سے کچھ فاصلے پر ہوا، جس میں پولیس کے دو سینیئر افسران سمیت 15 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔
اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ایک دھڑے ’جماعت الاحرار‘ نے قبول کی تھی۔
اس تناظر میں اسلام آباد میں تعینات افغانستان کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن سید عبدالناصر یوسفی کو پاکستان کی وزارت خارجہ میں بلایا گیا اور جماعت الاحرار کی افغانستان میں موجود مبینہ پناہ گاہوں کے بارے میں افغان سفارت کو پاکستان کی تشویش سے آگاہ کیا گیا۔
پاکستانی وزارت خارجہ سے بدھ کو جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ ’’افغانستان میں جماعت الاحرار کی پناہ گاہوں سے‘‘ پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں کے بارے میں پاکستان کے شدید تحفظات سے افغانستان کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن سید عبدالناصر یوسفی کو آگاہ کیا گیا۔
بیان کے مطابق اس بارے میں افغانستان کے ساتھ قبل ازیں قابل عمل انٹیلی جنس معلومات کی فراہمی پر بھی افغان سفارت کار کی توجہ مبذول کروائی گئی۔
وزارت خارجہ کے مطابق افغانستان پر زور دیا گیا کہ وہ اپنی سرزمین پر موجود ان دہشت گردوں، اُن کی پناہ گاہوں، اُنھیں مالی معاونت فراہم کرنے والوں اور اُن کے معاونین کے خلاف فوری کارروائی کرے۔
بیان میں کہا گیا کہ اس بارے میں افغان سفارت کار کو معلومات بھی فراہم کی گئی ہیں۔
اُدھر بدھ کی شام اسلام آباد میں ایک تقریب کے دوران پاکستان میں تعینات افغانستان کے سفیر حضرت عمر زخیلوال نے لاہور اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں دہشت گرد حملوں کی شدید مذمت کی۔
افغان سفیر نے کہا کہ پاکستان نے افغان سرحد کے قریب اپنے قبائلی علاقوں میں جب دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی تو اُس میں تمام عسکریت پسند نہیں مارے گئے، بلکہ اُن میں سے کچھ افغانستان کے اُن علاقوں میں منتقل ہو گئے جو کہ کابل حکومت کے زیر کنٹرول نہیں ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ افغان صدر اشرف غنی نے گزشتہ روز پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سے ٹیلی فون پر رابطہ کر کے دہشت گرد حملوں کی مذمت کی تھی
واضح رہے کہ افغانستان کی حکومت کی طرف سے یہ الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں کہ افغان طالبان کی پناہ گاہیں اب بھی پاکستان میں ہیں جہاں سے عسکریت پسند افغانستان میں حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
تاہم پاکستان ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
سابق سفارت اور تجزیہ کار رستم شاہ مہمند نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دہشت گردی پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے اور اس اندرونی مسئلے سے نمٹنے کے لیے اسلام آباد کو ہی اپنی پالیسی کو بہتر بنانا ہو گا۔
رستم شاہ مہمند نے کہا کہ افغانستان میں اب بھی بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں کابل حکومت کی عمل داری نہیں ہے، اس لیے یہ توقع کرنا کہ افغانستان ان عناصر کے خلاف کارروائی کر کے اُنھیں ختم کر دے گا، اُن کے بقول یہ حقیقت پسندانہ سوچ نہیں ہو گی۔
’’اپنے گھر، اپنے نظام اور اپنی سکیورٹی کو ٹھیک کرنا ہے۔۔۔۔ اندرونی طور پر جو کمزوریاں اور غلطیاں ہیں اُن کو ٹھیک کرنا ہے۔۔۔ سرکاری طور پر تشویش سے آگاہ کرنا تو ٹھیک ہے، تاکہ یہ معاملہ ریکارڈ پر آجائے۔۔۔ افغانستان یا ہندوستان کی طرف انگلی اٹھانے سے ہمیں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔ ‘‘
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان میں مختلف انٹیلی جنس اداروں کے درمیان معلومات کے تبادلے کا مربوط نظام نہیں ہے، اس لیے عسکریت پسندوں کو موقع ملتا ہے وہ کارروائی کرتے ہیں۔
’’یہ دہشت گردی کی نئی لہر آئی ہے۔۔۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ (عسکریت پسند) اب بھی فعال ہیں، اُن کے پاس وسائل بھی ہیں اور حملے بھی کراتے ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ گزشتہ اتوار کو کراچی میں ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کی گاڑی پر حملے میں ایک معاون کیمرہ مین کی ہلاکت کے علاوہ لاہور، مہمند ایجنسی، پشاور اور کوئٹہ میں بھی دہشت گردی کے واقعات ہو چکے ہیں۔
ان دہشت گرد حملوں کے بعد سلامتی کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت بدھ کو ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا، جس میں فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی شریک تھے۔
اجلاس کے بعد جاری بیان کے مطابق دہشت گردوں کے مکمل خاتمے کے عزم کو دہرایا گیا۔
اُدھر پاکستان کے سرکاری میڈیا کے مطابق پاکستان نے افغانستان سے ملحقہ اپنی سرحد پر سکیورٹی بڑھا دی ہے۔