اسلام آباد —
پاکستان میں جمعرات کو قومی و صوبائی اسمبلیوں کے 41 حلقوں میں ضمنی انتخابات کے لیے ووٹ ڈالے گئے۔
قومی اسمبلی کے 15 اور صوبائی اسمبلیوں کے 26 حلقوں میں ہونے والے ان ضمنی انتخابات کے لیے ملک بھر میں سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔
پولنگ بغیر کسی وقفے کے صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک جاری رہی۔
جن حلقوں میں یہ ضمنی انتخابات ہوئے اُن میں سے زیادہ تر حلقے وہ ہیں جہاں 11 مئی کے انتخابات کے دوران ایک سے زائد نشستوں پر جیتنے والے اُمیدوار دستبردار ہو گئے تھے۔
ان انتخابات کے انعقاد سے محض دو روز قبل صوبہ خیبر پختونخواہ کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں سلامتی کے خدشات کے باعث انتخابات ملتوی کر دیئے گئے تھے۔
ضمنی انتخابات کے لیے ملک بھر میں قائم 7,600 پولنگ اسٹیشنوں میں سے لگ بھگ 1,800 کو انتہائی حساس قرار دیا گیا اور وہاں پولنگ اسٹیشن کے اندر بھی فوجی اہلکار تعینات کیے گئے۔
قائم مقام چیف الیکشن کمشنر جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ ضمنی انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے فوج کو زیادہ اختیارات دیے گئے۔
’’آرمی اور پریزائڈنگ افسران کے درمیان مکمل ہم آہنگی ہے اور مجھے ایسی کوئی اطلاع نہیں ملی کہ ان کے درمیان کسی طرح کی غلط فہمی ہے۔‘‘
پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے علاوہ ضمنی انتخابات کے دوران تقریباً 30 ہزار فوجی اہلکار بھی تعینات کیے گئے۔
ملک بھر میں پولنگ کے عمل کے دوران مجموعی طور پر صورت حال پرامن رہی۔ بلوچستان کے سرحدی ضلع چمن میں جمعرات کی صبح پولنگ اسٹیشنز کے قریب نصب دو بم ناکارہ بنا دیئے گئے تھے جس کے بعد ووٹ ڈالنے کا عمل جاری رہا۔
صوبہ خیبر پختونخواہ کے ایک حلقے سے یہ شکایات بھی سامنے آئیں کہ وہاں خواتین ووٹروں کو حق رائے دہی کے استعمال سے روکا گیا۔
تاہم سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان نے بتایا کہ اگر اس بارے میں مصدقہ شواہد ملے تو کارروائی کی جائے گی۔
’’سیاسی جماعتوں کے ساتھ یہ فیصلہ ہوا تھا کہ وہ (خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکنے) کے لیے تحریری، زبانی کسی طرح معاہدہ نہیں کریں گی بلکہ کوشش کریں گے کہ خواتین اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں۔‘‘
اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے ایک حلقے کے پولنگ اسٹیشن پر موجود قاضی ابوبکر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 11 مئی کے انتخابات کی نسبت اس مرتبہ سکیورٹی کے بہتر انتظامات کیے گئے تھے۔
’’انتظامات سے اس دفعہ کافی معطمئین ہیں، کیوں کہ جو فوج کی مدد لی گئی ہے وہ بہت بہتر ہے۔ اس سے عوام بھی اور میرے خیال میں اُمیدوار بھی مطمئین ہیں۔‘‘
پاکستان میں ہونے والے سب سے بڑے ضمنی انتخابات کے نتائج سیاسی جماعتوں کی قومی اور صوبائی اسمبلی میں عددی اکثریت پر کوئی خاص اثر انداز نہیں ہوں گے کیوں کہ مرکز اور چاروں صوبوں میں بننے والی حکومتوں کو ایوانوں میں واضح اکثریت حاصل ہے۔
قومی اسمبلی کے 15 اور صوبائی اسمبلیوں کے 26 حلقوں میں ہونے والے ان ضمنی انتخابات کے لیے ملک بھر میں سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔
پولنگ بغیر کسی وقفے کے صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک جاری رہی۔
جن حلقوں میں یہ ضمنی انتخابات ہوئے اُن میں سے زیادہ تر حلقے وہ ہیں جہاں 11 مئی کے انتخابات کے دوران ایک سے زائد نشستوں پر جیتنے والے اُمیدوار دستبردار ہو گئے تھے۔
ان انتخابات کے انعقاد سے محض دو روز قبل صوبہ خیبر پختونخواہ کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں سلامتی کے خدشات کے باعث انتخابات ملتوی کر دیئے گئے تھے۔
ضمنی انتخابات کے لیے ملک بھر میں قائم 7,600 پولنگ اسٹیشنوں میں سے لگ بھگ 1,800 کو انتہائی حساس قرار دیا گیا اور وہاں پولنگ اسٹیشن کے اندر بھی فوجی اہلکار تعینات کیے گئے۔
قائم مقام چیف الیکشن کمشنر جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ ضمنی انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے فوج کو زیادہ اختیارات دیے گئے۔
’’آرمی اور پریزائڈنگ افسران کے درمیان مکمل ہم آہنگی ہے اور مجھے ایسی کوئی اطلاع نہیں ملی کہ ان کے درمیان کسی طرح کی غلط فہمی ہے۔‘‘
پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے علاوہ ضمنی انتخابات کے دوران تقریباً 30 ہزار فوجی اہلکار بھی تعینات کیے گئے۔
ملک بھر میں پولنگ کے عمل کے دوران مجموعی طور پر صورت حال پرامن رہی۔ بلوچستان کے سرحدی ضلع چمن میں جمعرات کی صبح پولنگ اسٹیشنز کے قریب نصب دو بم ناکارہ بنا دیئے گئے تھے جس کے بعد ووٹ ڈالنے کا عمل جاری رہا۔
صوبہ خیبر پختونخواہ کے ایک حلقے سے یہ شکایات بھی سامنے آئیں کہ وہاں خواتین ووٹروں کو حق رائے دہی کے استعمال سے روکا گیا۔
تاہم سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان نے بتایا کہ اگر اس بارے میں مصدقہ شواہد ملے تو کارروائی کی جائے گی۔
’’سیاسی جماعتوں کے ساتھ یہ فیصلہ ہوا تھا کہ وہ (خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکنے) کے لیے تحریری، زبانی کسی طرح معاہدہ نہیں کریں گی بلکہ کوشش کریں گے کہ خواتین اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں۔‘‘
اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے ایک حلقے کے پولنگ اسٹیشن پر موجود قاضی ابوبکر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 11 مئی کے انتخابات کی نسبت اس مرتبہ سکیورٹی کے بہتر انتظامات کیے گئے تھے۔
’’انتظامات سے اس دفعہ کافی معطمئین ہیں، کیوں کہ جو فوج کی مدد لی گئی ہے وہ بہت بہتر ہے۔ اس سے عوام بھی اور میرے خیال میں اُمیدوار بھی مطمئین ہیں۔‘‘
پاکستان میں ہونے والے سب سے بڑے ضمنی انتخابات کے نتائج سیاسی جماعتوں کی قومی اور صوبائی اسمبلی میں عددی اکثریت پر کوئی خاص اثر انداز نہیں ہوں گے کیوں کہ مرکز اور چاروں صوبوں میں بننے والی حکومتوں کو ایوانوں میں واضح اکثریت حاصل ہے۔