رسائی کے لنکس

وزارت دفاع کی جیو کے خلاف درخواست پر پیمرا کا اجلاس


وزیر داخلہ نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ اہم دفاعی اداروں کو جس تنقید اور الزامات کا نشانہ بنایا گیا اس کی مثال دنیا کے کسی ملک میں نہیں ملتی۔

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی "پیمرا" نے نجی ٹی وی چینل "جیو نیوز" کے خلاف وزارت دفاع کی درخواست پر غور کے لیے بدھ کو تین رکنی خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی اور ایک عہدیدار کے مطابق چینل کو اظہار وجوہ کا نوٹس بھی ارسال کیا جائے گا۔

وزارت دفاع کی طرف سے منگل کو پیمرا سے درخواست کی گئی تھی کہ ملک کے نجی ٹی وی چینل 'جیو نیوز' کی نشریات معطل کر دی جائیں۔

پیمرا کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وزارت دفاع کی درخواست کا جائزہ لینے کے لیے قائم کی گئی کمیٹی نے جیو نیوز کو اظہار وجوہ کا نوٹس بھیجنے کا فیصلہ کیا, تاکہ دوسرے فریق کا موقف بھی سنا جائے اور ان سے وزارت کی طرف سے عائد کردہ الزامات اور شواہد کی بابت وضاحت طلب کی جا سکے۔

اس کمیٹی میں پیمرا کے قائم مقام چیئرمین پرویز راٹھور، پرائیوٹ ممبر اسرار عباسی اور پی ٹی اے کے چیئرمین اسماعیل شاہ شامل ہیں۔

عہدیدار کے مطابق نوٹس میں فریق سے سات روز میں اپنی وضاحت کا کہا جاتا ہے اور پیمرا کسی بھی خلاف ورزی کے مرتکب چینل کو دس لاکھ سے ایک کروڑ روپے تک جرمانہ عائد کر سکتا ہے جب کہ انتہائی اقدام کی صورت میں اس چینل کی نشریات معطل کرنے کا اختیار بھی پیمرا ہے پاس ہے۔

قبل ازیں وزارت دفاع کی ترجمان ناریتہ فرحان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں جیو نیوز کی نشریات کی معطلی سے متعلق درخواست کی تصدیق بھی کی تھی۔

پاکستانی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ جیو نیوز کی جانب سے ریاست کے ایک ادارے کے خلاف ایسی خبریں نشر کی گئیں جو کہ نہیں کی جانی چاہیں تھیں اور عدلیہ و فوج ایسے اداروں کو بغیر شواہد کے بدنام کرنا جرم ہے۔

جیو ٹیلی ویژن سے وابستہ سینیئر صحافی حامد میر پر کراچی میں قاتلانہ حملے کے بعد اُن کے بھائی کی جانب سے ایک بیان میں یہ الزام لگایا گیا کہ حامد میر نے اُنھیں بتایا تھا کہ اگر اُن پر حملہ ہوا تو ’اس کے ذمہ دار آئی ایس آئی کے سربراہ‘ اور بعض دیگر افسران ہوں گے۔

تاہم فوج کے ترجمان کی جانب سے اس کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا گیا کہ بغیر شواہد کے ایسے الزامات گمراہ کن ہیں جب کہ اس معاملے کی آزادانہ تحقیقات کے لیے بھی کہا گیا۔

معروف قانون دان ایس ایم ظفر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کسی بھی ادارے کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے خلاف میڈیا میں مبینہ الزامات کے بارے میں پیمرا یا عدالت سے رجوع کرے۔
’’وہ عدالت میں بھی جا سکتے تھے، اُنھوں نے ضروری یہ سمجھا کہ وہ پہلے پیمرا میں جائیں۔ پیمرا کے اختیارات تو ہیں کہ وہ کوئی فیصلہ کر سکے ۔۔۔۔ لیکن میں صرف اتنا کہوں گا کہ دوسرے فریق کو بھی پوری طرح سے سنا جائے۔‘‘

اُدھر منگل کی شب وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے ایک بیان میں صحافی حامد میر پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے کو جواز بنا کر ’’ پاکستان کے قومی اداروں پر جو حملے کیے جا رہے ہیں اور بغیر کسی ثبوت کے انہیں مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے۔‘‘

انھوں نے کہا کہ جس طرح سے ’’اہم دفاعی اداروں کو تنقید اور الزامات کا نشانہ بنایا گیا اس کی مثال دنیا کے کسی ملک میں نہیں ملتی۔ حد تو یہ ہے کہ جو منفی پروپیگنڈہ اداروں کے بارے میں مخصوص حلقوں نے کیا اس کی گونج اور تشہیر ہمارے دشمنوں نے پوری دنیا میں پھیلائی۔‘‘

وزیر داخلہ نے کہا کہ ملک دفاعی اداروں کے افسر اور جوان پاکستان کے تحفظ کی خاطر ہر روز اپنی جان اور خون کی قربانی دے رہے ہیں اور اُن کے بقول یہ یکطرفہ اور منفی ’’پروپیگنڈہ‘‘ قابل تشویش ہی نہیں قابل مذمت بھی ہے۔

چودھری نثار نے اپنے بیان میں کہا کہ اب جب کہ حکومت سپریم کورٹ کے تین سینیئر ججوں پر مشتمل کمیشن قائم کر چکی ہے ’’تو اس قسم کی الزام تراشی کیا معنی رکھتی ہے۔‘‘

گزشتہ دو روز کے دوران جیو نیوز کے کئی پروگراموں میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ ادارے کی جانب سے انٹیلی جنس ادارے پر براہ راست الزام نہیں لگایا گیا ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے جیو کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیمرا ہی وہ فورم ہے جہاں دونوں فریقوں کا موقف سنا جائے گا۔
XS
SM
MD
LG